ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کی سب سے بڑی ذمہ داری اکثریتی سماج کی: مولانا محمود مدنی

نشست کو خطاب کرتے ہوئے مولانا سید محمود مدنی نے کہا کہ ملک میں مختلف طبقات کے ساتھ ہو رہی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھانے کی سب سے بڑی ذمہ داری اکثریتی سماج کی ہے

<div class="paragraphs"><p>تصویر پریس ریلیز</p></div>

تصویر پریس ریلیز

user

پریس ریلیز

لکھنؤ: ملک کے موجودہ حالات میں درپیش چیلنجز اور ان کے حل پر غور کر کے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کے لئے جمعیۃ علماء اترپردیش اور جمعیۃ علماء وسط زون کی جانب سے اکثریتی سماج سے تعلق رکھنے والے دانشوران و فکر مند حضرات کی ایک مذاکراتی نشست ریاستی راجدھانی لکھنؤ کے ہوٹل ری جینٹا سینٹرل میں رکھی گئی، جس میں بطور مہمان خصوصی جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر مولانا محمود اسعد مدنی کے علاوہ کئی اہم یونیورسٹیز کے پروفیسر، ڈاکٹر، وکلاء، سوشل ایکٹوسٹ اور سماجی خدمت گار حضرات نے شریک ہو کر جدید چیلنجز سے متعلق اپنی آراء پیش کیں۔

نشست کو خطاب کرتے ہوئے مولانا سید محمود مدنی نے کہا کہ ملک میں مختلف طبقات کے ساتھ ہو رہی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھانے کی سب سے بڑی ذمہ داری اکثریتی سماج کی ہے۔ مسلمانوں کے حوالہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تین قسم کے لوگوں سے ہمیں واسطہ ہے، ایک وہ جو ہر حال میں ہمارے مخالف ہیں، دوسرے وہ جو ہر حال میں ہمارے دوست ہیں، تیسرے وہ جو نیوٹرل ہیں اور ہماری اچھی بات پر ستائش کرتے ہیں اور اگر کوئی منفی بات ان کے سامنے آتی ہے تو اس پر بھی رد عمل دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو غلط انفارمیشن کے ذریعہ گمراہ کیا جا رہا ہے۔

مجموعی طور پر چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ تین شعبوں میں ہمارے سامنے اہم دشواریاں ہیں، جمہوریت، ہیومن رائٹ اور سوشل جسٹس۔ ان تینوں شعبو ں میں کام کر کے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ مولانا نے زور دے کر کہا کہ ڈائیلاگ کا دروازہ کسی صورت میں بند نہیں کیا جانا چاہئے خواہ سامنے والا ہمارا دشمن ہی کیوں نہ ہو۔


لکھنؤ یونیورسٹی کے سابق صدر پروفیسر رمیش دکشت نے کہا کہ ہندوستان میں جتنے بھی باشندے ہیں سب برابر کے حصے دار ہیں۔ یہاں واد، سمواد کے بعد نتیجہ پر پہنچنے کی روایت رہی ہے۔ یہاں کا سمودھان سبھی لوگوں کو مساوی اختیارات اور سہولیات فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے بتلایا کہ آئین میں چھوت چھات کے خاتمہ، عوامی حقوق، مائنارٹی کے حقوق سے متعلق شقیں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں مائنارٹی کے ساتھ کھڑے ہونا چاہئے اور ان کے اندر بھروسہ پیدا کرنا چاہئے۔ آج ہمارے سماج میں محلے داری کا رواج ختم ہوا ہے جس سے آپسی ہم آہنگی کو نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے اندر ظلم کو ظلم کہنے کی ہمت ہونی چاہئے اور ہمیں ظلم کے خلاف مضبوطی سے کھڑا ہو جانا چاہئے۔ اس سلسلے میں انہوں نے آزادی کے بعد مہاتما گاندھی کے اپواس کی مثال بھی پیش کی۔

کانپور یونیورسٹی کے سابق رجسٹرار اور بہوجن سوشل فرنٹ کے ریاستی صدر پرشانت پرساد نے کہا کہ اس ملک میں ہر دور میں مذہب اور مذہبی لوگ رہے ہیں لیکن آج جو صورتحال بنائی جا رہی ہے وہ افسوسناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے آئین میں پہلے مساوات ہے پھر آزادی ہے، جب مساوات ہوگی تب ہی حقیقی آزادی کہلائے گی۔

جمعیۃ علماء کے ریاستی نائب صدر مولانا امین الحق عبداللہ قاسمی نے اپنے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ تین چیزوں سے اس وقت ہم نبرد آزما ہیں، پولرازیشن، انٹالرنس اور غلط انفارمیشن۔ سماج کے چھوٹے بڑے سیاسی و نظریاتی گروہ اس قدر محدود ہوکر سوچ رہے ہیں کہ انہیں دوسرے گروہ کے نظریات کو سننے اور سمجھنے کا موقع نہیں مل رہا ہے۔پولرائزیشن کی وجہ سے سماج کے الگ الگ گروہ ایک دوسرے سے دور ہیں جس کی وجہ سے ایک دوسرے کے نظریات سے واقف بھی نہیں ہیں اور اپنے علاوہ کسی نظریہ کا موجود ہونا بھی برداشت نہیں کررہے ہیں۔

اسی کے ساتھ غلط یا ادھوری معلومات بھی سماج کے الجھاؤ کا سبب بن رہی ہے۔ مولانا نے کہا کہ ایسے میں سماج کو ضرورت پڑتی ہے کچھ ایسے لوگوں کی جو بھلائی اورسچائی پر یقین رکھتے ہوں۔ جو دیگر نظریات کا وجود بھی برداشت کرنے کے متحمل ہوں۔ اسی فکر کے تحت جمعیۃ علماء کی جانب سے درد مند دل اور فکر مند دماغ رکھنے حضرات کو جمع کیا گیا ہے۔


سوشل ایکٹیوسٹ ارُن کھوٹے نے کہا کہ اقلیتوں خصوصا مسلمانوں کے تعلق سے جو غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں ان کو صاف کرنے کی ضرورت ہے۔ سماج میں منافرت پھیلانے والے اس کی وجہ سے کامیاب ہورہے ہیں۔ جمہوریت، ہیومن رائٹس اور سماجی حقوق اس وقت نہایت اہم نکات ہیں۔ اس پر مستقل مزاجی کے ساتھ لانگ ٹرم پلاننگ کی ضرورت ہے۔

انڈین ائیر فورس کے ریٹائرڈ گروپ کیپٹن دنیش چندر نے کہا کہ دلت اور پچھڑے طبقات نیز اقلیتی سماج کے لوگوں ایک دوسرے کی مدد کو کھڑے ہوسکتے ہیں۔ آج کی نشست ٹوٹتے ہوئے ملک کو بچانے کی مثبت کوشش ہے جس کے لئے جمعیۃ علماء کے ذمہ داران لائق مبارک باد ہیں۔ انہوں نے کہا ہمیں ایسا میکانزم ڈیولپ کرنے کی ضرورت ہے جس سے ہمارا پیغام سماج کے آخری شخص تک پہنچ سکے۔

لکھنؤ یونیورسٹی کی سابق وائس چانسلر پروفیسر روپ ریکھا ورما نے کہا کہ ہمارے ملک کی پہچان اس کی وودھتا ہے، آج اسی پر حملہ ہورہا ہے، ہمیں اپنی ہندوستانیت بچانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسانوں میں جتنی بھی خراب صفات ہوتی ہیں، پوری پلاننگ کے ساتھ ان صفات کو ابھارنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے تکلیف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک دشمن ہمیں مساوات سے نکال کر ہماروں سال قدیم روایات میں لے جانا چاہتے ہیں جہاں انسانیت کے درمیان تفریق سکھائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مظلوم خواہ کوئی بھی ہو اس کے ساتھ کھڑا ہونا وقت کی تقاضہ ہے۔

اس کے علاوہ تمام شرکاء نے اس بات اتفاق کیا کہ موجودہ چیلنجز کسی خاص طبقہ کیلئے نہیں بلکہ ہمارے ملک اور تمام باشندگان ملک کے لئے ہیں۔ دیگر خطاب کرنے والوں میں معروف قلم کار مسز وندنا مشرا، معروف شاعر اور یوپی پولیس کے سابق ایڈیشنل ایس پی چرن سنگھ بشر، ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ مسز میہا کھندوری، ریٹائرڈ آئی پی ایس آفتاب خان، ایس ایس پی جی کالج شاہجہان پور کے شعبہ تاریخ کے چیئر پرسن وکاس کھرانا بطور خاص شریک رہے۔


مذاکراتی نشست کے اخیر میں ڈائیلاگ کے اس سلسلے کو آگے بڑھانے کیلئے ۹/ رکنی اڈہاک کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں پروفیسر رمیش دکشت، آنند وردھن سنگھ، چرن سنگھ بشر، ارُن کھوٹے، وندنا مشرا، لالتی دیوی، وکاس کھرانا اور پروفیسر نعمان کو شامل کیا گیا جبکہ ششانک یادو کو اس کمیٹی کا کنوینر بنایا گیا۔

اخیر میں جمعیۃ علماء ہند کے سوشل معاملات کے ایڈوائزر اویس سلطان نے ان پروگراموں کا مقصد بیان کرتے ہوئے بتلایا کہ جمعیۃ کی جانب سے اس سے قبل دہلی، مہارشٹر اور حیدرآباد میں اس نوعیت کے پروگرام کیے جاچکے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔