مہاراشٹر: شیواجی پارک میں ادھو ٹھاکرے کی حلف برداری کی تیاریاں شروع، ہائی کورٹ فکرمند!

ایک عرضی پر سماعت کرتے ہوئے بمبئی ہائی کورٹ نے کہا کہ ’’کل کے پروگرام (حلف برداری تقریب) کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہنا چاہتے۔ ہم صرف یہ دعا کر رہے ہیں کہ کچھ ناخوشگوار واقعہ سرزد نہ ہو۔‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

شیوسینا سربراہ ادھو ٹھاکرے ’مہا وکاس اگھاڑی‘ یعنی شیوسینا، کانگریس و این سی پی اتحاد کے متفقہ لیڈر منتخب ہو چکے ہیں اور اب مہاراشٹر کے شیواجی پارک میں بطور وزیر اعلیٰ ان کی حلف برداری کی تیاریاں شروع ہو گئی ہے۔ شیوسینا کارکنوں میں ادھو ٹھاکرے کے وزیر اعلیٰ بننے کی راہ آسان ہونے کے بعد زبردست جوش دیکھنے کو مل رہا ہے۔ لیکن ادھو کی حلف برداری کو لے کر بمبئی ہائی کورٹ متفکر ہے اور اس کا اظہار عدالت نے ایک عرضی پر سماعت کے دوران کیا۔

دراصل ہائی کورٹ غیر سرکاری تنظیم ’ویکم ٹرسٹ‘ کی ایک عرضی پر سماعت کر رہی تھی جس میں سوال اٹھایا گیا تھا کہ شیواجی پارک کھیل کا میدان ہے اور یہاں لوگ تفریح کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ ایسی جگہ پر ادھو ٹھاکرے کے ذریعہ وزیر اعلیٰ عہدہ کا حلف لینا مناسب نہیں ہوگا۔ عرضی پر سماعت کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ ’’کل کے پروگرام کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہنا چاہتے۔ ہم صرف یہ دعا کر رہے ہیں کہ کچھ ناخوشگوار واقعہ سرزد نہ ہو۔‘‘


بمبئی ہائی کورٹ میں جسٹس ایس سی دھرمادھیکاری اور جسٹس آر آئی چھاگلا کی ڈویژن بنچ نے اس بات کو لے کر بھی فکر کا اظہار کیا کہ ’’دراصل ہوگا یہ کہ (پروگرام کا انعقاد) ایک روایت بن جائے گی اور پھر ہر کوئی اس طرح کی تقاریب کے لیے میدان کا استعمال کرنا چاہے گا۔‘‘ عدالت نے ادھو ٹھاکرے کی حلف برداری سے متعلق کوئی فیصلہ تو صادر نہیں کیا لیکن یہ ضرور کہا کہ عوامی مقامات پر اس طرح کی تقاریب منعقد کرنے کا سلسلہ شروع نہیں ہونا چاہیے۔

واضح رہے کہ شیوسینا سربراہ ادھو ٹھاکرے 28 نومبر یعنی جمعرات کو شیواجی پارک میں وزیر اعلیٰ عہدہ کا حلف لینے والے ہیں۔ اس تقریب کے لیے شیوسینا کے ساتھ ساتھ مہاراشٹر کانگریس اور این سی پی کے کارکنوں میں بھی جوش دیکھنے کو مل رہا ہے۔ کافی تگ و دو کے بعد قائم ہوئے شیوسینا-کانگریس-این سی پی اتحاد اس وقت کافی مضبوطی کے ساتھ حکومت سازی کے لیے آگے بڑھی ہے، لیکن سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس اتحاد کے سامنے ابھی کئی مشکلات آنی باقی ہیں اور دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ اس کا سامنا یہ پارٹیاں کس طرح کرتی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔