پوار کی ’طاقت‘ نے کچھ اس طرح دی مودی-شاہ کو ’شکست‘، پی ایم کی شبیہ مجروح!

مہاراشٹر میں بی جے پی کو ملی شکست کے بعد پارٹی کے لیڈران نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ جو کچھ ہوا اس سے نہ صرف پارٹی کی شبیہ داغدار ہوئی ہے بلکہ پی ایم نریندر مودی کی شبیہ بھی کافی مجروح ہوئی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

مہاراشٹر میں جو کچھ بھی ہوا اسے بی جے پی کی بڑی شکست کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس شکست نے اس کے دو بڑے لیڈروں کی ’سمجھداری‘ پر سوال کھڑے کر دیئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ 79 سالہ شرد پوار نے ہندوستانی سیاست کے ’چانکیہ‘ کہے جانے والے امت شاہ کو زبردست طریقے سے شکست دی ہے۔ ان کے سیاسی تجربہ اور سمجھداری کا ہی کمال تھا کہ مہاراشٹر میں پہلی بار شیوسینا کے لیے این سی پی اور کانگریس کی حمایت سے حکومت تشکیل دینے کا راستہ ہموار ہوا۔

سپریم کورٹ نے منگل کو جیسے ہی کہا کہ بدھ کی شام 5 بجے تک دیویندر فڑنویس کو اکثریت ثابت کرنی ہوگی، تو بی جے پی کو سانپ سونگھ گیا۔ فیصلے کے کچھ ہی دیر بعد پہلے نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار نے استعفیٰ دیا۔ اس کے بعد دیویندر فڑنویس کو بھی استعفیٰ دینا پڑا۔ مہاراشٹر کی سیاست کے مرکز میں صرف شرد پوار ہی تھے۔ یہ لڑائی سیدھے مودی-شاہ کے خلاف تھی۔ اور اس لڑائی میں پوار کی ’طاقت‘ کے آگے مودی-شاہ کی جوڑی کی ’شکست‘ ہوئی۔


کہا جا رہا ہے کہ اس پورے واقعہ کو بی جے پی اعلیٰ کمان ٹی وی پر دہلی میں براہ راست دیکھ رہے تھے۔ اس سے کچھ گھنٹے پہلے پی ایم نریندر مودی، مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور بی جے پی کے کارگزار صدر جے پی نڈا نے پارلیمنٹ ہاؤس واقع پی ایم کے دفتر میں میٹنگ کی تھی۔ ہندی نیوز پورٹل ’جن ستّا‘ کی خبر کے مطابق بی جے پی لیڈر مہاراشٹر میں اکثریت ثابت کرنے کو لے کر مطمئن تھے، انھیں اس طرح کے سیاسی الٹ پھیر کی کوئی امید نہیں تھی، لیکن وہ جانتے تھے کہ ’کچھ بھی ممکن ہے‘۔

سیاسی ماہرین کا ماننا ہے کہ مہاراشٹر میں جو کچھ بھی ہوا اس سے پارٹی کی شبیہ کو نقصان ہوا ہے۔ یہ صرف اقتدار سے ہاتھ دھونے کی بات نہیں ہے بلکہ یہ گزشتہ 18 مہینے میں پارٹی کی شبیہ پر لگا دوسرا بڑا دھکا ہے۔ دراصل کرناٹک میں تو وزیر اعلیٰ بی ایس یدی یورپا کو حلف لینے کے تین دن بعد ہی استعفیٰ دینا پڑا تھا کیونکہ ان کے پاس ضروری نمبر نہیں تھے۔ حالانکہ مہاراشٹر میں جو کچھ بھی ہوا، اس جھنجھٹ میں صدر جمہوریہ اور وزیر اعظم کا بھی دفتر زد میں آ گیا۔ واضح رہے کہ وزیر اعظم کو ملے خصوصی اختیار کا ہی استعمال کر کے مہاراشٹر میں علی الصبح صدر راج ہٹایا گیا اور صبح سویرے ہی فڑنویس اور اجیت پوار کی حلف برداری کا راستہ صاف ہو گیا۔


’جن ستّا‘ کی رپورٹ کے مطابق کچھ بی جے پی لیڈروں کا ماننا ہے کہ شاید بی جے پی اس معاملے میں ’اوور کنفیڈنس‘ تھی۔ گزشتہ جمعرات تک جب ادھو ٹھاکرے این سی پی اور کانگریس کے ساتھ اپنی بات چیت کو آگے بڑھا رہے تھے، اس وقت تک بھی بی جے پی لیڈرشپ کو بھروسہ تھا کہ شیوسینا نظریاتی طور پر یکساں نظر آنے والی بی جے پی سے رشتے نہیں توڑے گی۔ شیوسینا بھلے ہی بی جے پی کو لگاتار تنقید کا نشانہ بنا رہی تھی، لیکن بی جے پی لیڈروں کو لگ رہا تھا کہ یہ ’ماتو شری کے بے اثر ہو رہے دبدبے کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش ہے اور ٹھاکرے کے گھر پر بی جے پی کی سرکردہ قیادت کا ایک دورہ اس مخالفت کو ختم کر دے گا۔‘‘

لیکن ایسا نہیں ہوا اور بی جے پی کو مہاراشٹر میں ایک بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی اس شکست کو بی جے پی کے کئی سینئر لیڈروں نے مانا کہ مہاراشٹر کے سیاسی منظرنامے سے نہ صرف پارٹی کی شبیہ کو نقصان ہوا ہے بلکہ اس کی وجہ سے پارٹی کے وقار اور پی ایم کی شبیہ کو بھی دھکا لگا ہے۔ ساتھ ہی اس سے یہ اشارہ گیا کہ بی جے پی اقتدار کی لالچی پارٹی ہے۔ تین دن قبل جس قدم کو بی جے پی کے پالیسی ساز ’ماسٹر اسٹروک‘ بتا رہے تھے، اب وہ پارٹی کے لیے زخم ثابت ہوئے ہیں۔ بی جے پی کے ایک رکن پارلیمنٹ نے مانا کہ مہاراشٹر میں شیوسینا کے رشتے توڑنے اور مخالف پارٹیوں کے ساتھ جانے کے بعد لوگوں کے ذہن میں بی جے پی کے تئیں اس بات کو لے کر ہمدردی تھی۔ حالانکہ ہفتہ کے بعد سے جو کچھ ہوا اس نے اس ہمدردی کو پوری طرح ختم کر دیا۔ رکن پارلیمنٹ کے مطابق پارٹی سب سے بڑی ’لوزر‘ یعنی شکست خوردہ بن کر ابھری ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔