مہاراشٹر انتخابات: نسیم خان کی شکست آر ایس ایس کے خُفیہ منصوبہ کی کامیابی
چاندیولی، ناگپور سینٹرل، اور دیگر اسمبلی حلقوں سے سینا بی جے پی امیدواروں کی فتح کا باعث وہ مسلم امیدوار تھے جنہیں چند ہزار ووٹ ملے, اس طرح RSS کا خفیہ منصوبہ کامیاب ہوگیا اور مسلمان ہاتھ ملتے رہ گئے
ممبئی: ریاست مہاراشٹر میں اسمبلی انتخابات کے دوران سابق اقلیتی امور کے وزیر و کانگریس کے قدآور مسلم لیڈر محمد عارف نسیم خان کی شکست دراصل آر ایس ایس و وشو ہندو پریشد کے خفیہ منصوبے کی کامیابی ہے نیز ان انتخابات کے دوران سیکولر جماعتوں سے تعلق رکھنے والے مسلم امیدواروں کی شکست کا سبب بننے والے نام نہاد مسلم شخصیات کے خلاف صف آرا ہونا چاہیے جن کی وجہ سے بھگوا سیاسی جماعتوں کے خفیہ منصوبہ کو عملی جامہ پہنایا جاسکا اور مسلم امیدواروں کی ایک بڑی تعداد کو ایوان اسمبلی کی رکنیت حاصل ہونے سے محروم ہونا پڑا۔ ان خیالات کا اظہار آج یہاں عروس البلاد ممبئی کے علماء کرام اور دانشوروں نے کیا۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن مولانا سید اطہر علی نے کہا کہ مہاراشٹر اسمبلی کے نتائج ملّت کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے کیونکہ سیکولر جماعتوں سے تعلق رکھنے والے15 سے زائد ایسے امیدوار تھے جو محض چند ووٹوں سے اس لئے ہار گئے کیونکہ مجلس اتحادالمسلمین سمیت دیگر سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے امیدواروں نے اتنے زیادہ ووٹ حاصل کر لئے جو سیکولر پارٹیوں کے نمائندوں کی شکست کا باعث بنے اور زعفرانی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کی فتح کی وجہ بنے۔ انہوں نے کہا کہ ان سیکولر امیدواروں کی شکست کا باعث بنے جس میں خود ہماری قوم کی ان نام نہاد شخصیات نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے جنہوں نے کھل کر بھگوا سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کی حمایت کی اور آر ایس ایس کے منصوبے کو کامیاب کیا۔
مولانا سید اطہر علی نے کہا کہ اس کی سب سے بڑی مثال سابق وزیر محمد عارف نسیم خان کی محض چار سو ووٹوں سے شکست کی ہے جو صرف اس لئے ہار گئے کیونکہ ان کے مقابل تین مسلم امیدواروں نے ہزاروں ووٹ کاٹ لئے نتیجتاً امّت مسلمہ ایک ایسے قدآور مسلم لیڈر سے محروم ہو گئی جو ایوان اسمبلی میں بے باکی کے ساتھ مسلم مسائل اٹھاتے تھے اور ایوان کے باہر بھی وہ مسلمانوں کی بے خوف ہو کر نمائندگی کرتے تھے۔ مولانا سید اطہر علی سے جب یہ دریافت کیا گیا کہ آیا ایسی شخصیات کے خلاف کیا مسلمانوں کو ان کا سماجی بائیکاٹ کرنا چاہیے تو انہوں نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ امت کے ذمہ دار ایک ہو کر اس سلسلےمیں جلد از جلد پیش رفت کریں۔
نامور تعلیمی ادارہ انجمن اسلام کے صدر ڈاکٹر ظہیر قاضی نے کہا کہ یہ افسوسناک امر ہے کہ ان انتخابات میں سیکولر جماعت سے تعلق رکھنے والے اور مسلم نمائندے محض چند ووٹوں سے اس لئے ہار گئے کہ ان کے مقابل ایسے مسلم امیدوار کھڑے تھے جن کا کم ووٹ حاصل کرنا ہی واحد ان کی شکست کا سبب بنا۔
ڈاکٹر ظہیر قاضی نے کہا کہ نسیم خان کی ایوان کی رکنیت سے محروم رہنا مہاراشٹر کے مسلمانوں کا ایک بڑا نقصان ہے جس کی تلافی ناممکن ہے لیکن اب بھی وقت ہے کہ ملت میں اتحاد پیدا ہو اور ایسے عناصر کے خلاف متحدہ طور پر مہم چلائی جائے جو مسلم لیڈر شپ کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
آل انڈیا علماء کونسل کے جنرل سکریٹری مولانا محمود دریا بادی نے کہا کہ انتخابات کے آمد سے قبل ہماری قوم میں زور شور سے اتحاد ملت کی بات ہوتی ہے لیکن جوں ہی انتخابات کی تاریخیں نزدیک آتی ہیں ہر کوئی اپنی سیاسی دوکان چلانے لگتا ہے جس سے اجتماعی طور پر قوم کا نقصان ہوتا ہےاور فرقہ پرست طاقتوں کو اقتدار میں آنے کا موقعہ حاصل ہوتا ہے۔
مولانا محمود دریابادی نے مزید کہا کہ رپورے ریاست کے مسلمانوں کی نگاہیں کانگریس امیدوار نسیم خان کی نشست پر مرکوز تھی لیکن نتیجہ مایوس کن نکلا اور نسیم خان صرف چار سو ووٹوں سے ہار گئے اس طر ح سے ایک بے باک لیڈر کو اقتدار میں آنے سے محروم ہونا پڑا لہذا اب کانگریس پارٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ جب بھی کوئی ضمنی انتخاب ہو یا قانون ساز کونسل یا راجیہ سبھا کی ممبر شپ دینے کا معاملہ ہو اس میں نسیم خان کے نام پر غور کر کے انہیں نمائندگی دی جائے۔
واضح رہے کہ ریاست کی چاندیولی، ناگپور سینٹرل، پونے کنٹونمنٹ، پیٹھن، ناندیڑ، کامٹی اور دیگر اسمبلی حلقوں سے سینا بی جے پی کے امیدواروں کی فتح کا باعث صرف اور صرف وہ مسلم امیدوار تھے جو صرف چند ہزار ووٹ حاصل کر سکے۔ اس طرح سے آر ایس ایس کا خفیہ منصوبہ کامیاب ہو گیا اور مسلمان ہاتھ ملتے رہ گئے۔
ذرائع کے مطابق دوران انتخاب نسیم خان کو وشو ہندو پریشد اور آر ایس ایس کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکی بھی دی گئی تھی جس کی انہوں نے باقائدہ تحریری شکایت مقامی پولس اسٹیشن کے علاوہ انسداد دہشت گرد دستہ میں بھی کی تھی لیکن کوئی مثبت کارروائی نہیں ہوئی البتہ یہ بھی خبر ہے کہ انتخابات سے دو دن قبل آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد نے ان کے حلقہ انتخاب میں خفیہ میٹنگ لے کر اکثریتی فرقہ کو ورغلایا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ ووٹنگ سے ایک دن قبل شیوسینا سربراہ ادھو ٹھاکرے نے انتخابی مہم کے خاتمہ کے بعد غیر قانونی طریقے سے چاندیولی حلقہ انتخاب کا دورہ کر کے اکثریتی فرقہ کو شیوسینا کے امیدوار کے حق میں ووٹ ڈالنے کے لئے دباؤ ڈالا تھا اس کی بھی شکایت پولس اسٹیشن میں کی گئی تھی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 28 Oct 2019, 12:11 PM