مہاراجہ فریدکوٹ کی بیٹیوں کو 30 سال بعد ملا انصاف، 20 ہزار کروڑ روپے کی ملکیت پر سپریم کورٹ نے سنایا فیصلہ

چیف جسٹس یو یو للت، جسٹس ایس رویندر بھٹ اور جسٹس سدھانشو دھولیا کی بنچ نے کہا کہ پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے وسیع طور سے ثبوتوں کی جانچ کی، ہائی کورٹ کے فیصلے سے سپریم کورٹ بھی متفق ہے۔

سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی
سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی
user

قومی آواز بیورو

فریدکوٹ اسٹیٹ معاملے میں 30 سال سے بھی زائد عرصہ سے جاری قانونی لڑائی کا فیصلہ سپریم کورٹ نے 7 ستمبر کو سنا دیا۔ یہ تنازعہ تقریباً 20 ہزار کروڑ روپے کی ملکیت کے اصلی حقدار کو لے کر تھا، اور سپریم کورٹ نے بدھ کے روز فیصلہ سناتے ہوئے پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے اس حکم کو برقرار رکھا جس میں فریدکوٹ کے مہاراجہ ہرندر سنگھ براڑ کی دو بیٹیوں امرت اور دیپندر کور کو اس ملکیت کا اصل حقدار بتایا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ جو ٹرسٹ ملکیت کے معاملوں کی دیکھ ریکھ کر رہا تھا، وہ ایک جعلی وصیت کی بنیاد پر بنایا گیا تھا۔

دراصل فریدکوٹ اسٹیٹ کے حق کے لیے جو عرضیاں داخل کی گئی تھیں، انھیں خارج کر دیا گیا۔ وہیں ٹرسٹ کو لے کر کہا گیا ہے کہ ’مہراول کھیواجی ٹرسٹ‘ 30 ستمبر تک بقایہ معاملوں کو نمٹانے کے ساتھ ہی دھرمارتھ اسپتال چلا سکتا ہے۔ چیف جسٹس یو یو للت اور جسٹس ایس رویندر بھٹ اور جسٹس سدھانشو دھولیا کی بنچ نے کہا کہ پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے وسیع طور سے ثبوتوں کی جانچ کی۔ عدالتوں کے ذریعہ لیے گئے سبھی فیصلے پر سپریم کورٹ پوری طرح سے متفق نظر آیا۔


فریدکوٹ اسٹیٹ تنازعہ میں سب سے بڑا مسئلہ تیسری وصیت سے متعلق تھا۔ اس کو لے کر مبینہ طور پر کہا جاتا رہا کہ سال 1982 میں یہ وصیت ہرندر سنگھ نے کی تھی۔ تیسری وصیت کے مطابق پوری ملکیت ’مہروال کھیواجی ٹرسٹ‘ نامی ایک ٹرسٹ کو وراثت میں ملے گی۔ مہاراجہ کی تین بیٹیاں امرت کور، دیپندر کور اور مہیپندر کور ہیں جنھوں نے اس وصیت کے خلاف آواز اٹھائی۔ 1989 میں مہاراجہ کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد کنبہ کے اراکین کو ان کی تیسری وصیت کے بارے میں پتہ چلا۔

مہاراجہ کے انتقال کے بعد بورڈ آف ٹرسٹیز نے ایگزیکیٹیو کے اتفاق سے راجہ ہرندر سنگھ براڑ کی پوری ملکیت پر قبضہ کر کنٹرول اور مینجمنٹ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ساتھ ہی ساتھ مختلف ریونیو اسٹیٹ میں واقع ملکیتوں کو ٹرسٹ کے نام پر بدل دیا گیا۔ اتنا ہی نہیں، شہری ملکیتوں کو بھی ٹرسٹ کے نام پر منتقل کر دیا گیا۔ اس کے بعد مہاراجہ کی سب سے بڑی بیٹی امرت کور، جسے ٹرسٹ کا حصہ نہیں بنایا گیا تھا، اس نے حق کے لیے ایک مقدمہ داخل کیا۔ اس میں کہا گیا کہ وہ ملکیت کے ایک تہائی حصے کی مالک ہے اور والد کی نام نہاد تیسری وصیت پوری طرح سے جھوٹی ہے۔ علاوہ ازیں دوسرا مقدمہ ہرندر سنگھ کے چھوٹے بھائی نے داخل کیا تھا جس میں شجرہ کے اصول کی بنیاد پر پوری ملکیت کی وراثت کا مطالبہ کیا گیا تھا۔


مہیپندر کور مہاراجہ کی سب سے چھوٹی بیٹی تھی، جس کا انتقال 2001 میں ہو گیا تھا۔ اس وقت معاملہ ذیلی عدالت میں زیر التوا تھا۔ وہ غیر شادی شدہ تھی، جس کی وجہ سے اپنی دو بہنوں کے علاوہ اس کا کوئی بھی نہیں تھا جو کہ اس کی طرف سے ملکیت پر دعویٰ کر سکے۔ چھوٹی بیٹی نے بھی داخل عرضی میں دعویٰ کیا تھا کہ راجہ کو مشترکہ ہندو فیملی کے فنڈ کے رکھ رکھاؤ کے علاوہ آنجہانی راجہ کی مشترکہ ہندو فیملی/آبائی/شریک ملکیتوں کو الگ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ چھوٹی بیٹی کی داخل عرضی کے مطابق ایک ہندو راجہ ہونے کے ناطے ہندو جانشیں ایکٹ کے مطابق وارث برابر شیئروں میں ملکیت کے حقدار ہیں۔

ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ سبھی دستاویزوں اور ثبوتوں کی جانچ کرنے کے بعد ذیلی عدالت اور ساتھ ہی ہائی کورٹ خود اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ تیسری وصیت قابل قبول نہیں ہے، کیونکہ یہ جعلی تھی۔ اس لیے پہلے کی عدالتوں کے فیصلے کو دھیان میں رکھتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے فیصلہ کو برقرار رکھا اور تین دہائی پرانے شاہی تنازعہ کو ختم کر دیا۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ نے فریدکوٹ کے بادشاہ کے چھوٹے بھائی کی بھی اس دلیل کو خارج کر دیا کہ وہ شجرہ کے اصولوں کے تحت وارث بننے کے حقدار تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔