لیفٹیننٹ گورنر کرن بیدی کو لگی عدالت کی پھٹکار، وزیر اعلیٰ نارائن سامی کی ہوئی جیت
ایک عرضی پر سماعت کرتے ہوئے مدراس ہائی کورٹ نے کہا کہ لیفٹیننٹ گورنر کرن بیدی کے پاس پڈوچیری کے وزیر اعلیٰ نارائن سامی کے کام میں مداخلت کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
پڈوچیری کے وزیر اعلیٰ نارائن سامی اور لیفٹیننٹ گورنر کرن بیدی کے درمیان اختیارات کے ٹکراؤ معاملہ پر مدراس ہائی کورٹ نے آج اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کرن بیدی کو زبردست پھٹکار لگائی۔ انھوں نے کہا کہ لیفٹیننٹ گورنر حکومت کی روز مرہ کی سرگرمیوں میں مداخلت نہیں کر سکتی ہیں۔
دراصل لیفٹیننٹ گورنر کرن بیدی اور وزیر اعلیٰ نارائن سامی کے درمیان حقوق کو لے کر کافی وقت سے گھمسان جاری تھا۔ عوامی تقاریب میں بھی دونوں کے درمیان ’توتو، میں میں‘ اور الزام تراشی کا سلسلہ کئی بار دیکھنے کو ملا۔ کرن بیدی کے ذریعہ ہر کام میں مداخلت اور سرکاری فائلوں کو آگے نہ بڑھائے جانے پر نارائن سامی نے اکثر ناراضگی ظاہر کی اور ایک بار تو وہ اپنی کابینہ کے ساتھ ایل جی کے خلاف ان کے ہی گھر کے باہر دھرنے پر بھی بیٹھ گئے تھے جو کئی دنوں تک جاری رہا تھا۔
اس پورے معاملے کو پیش نظر رکھتے ہوئے مدراس ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ حکومت کے روزمرہ کے کاموں میں لیفٹیننٹ گورنر کی مداخلت مرکز کے زیر انتظام ریاست میں منتخب حکومت کے حقوق کے خلاف ہے۔ لہٰذا عرضی میں اس مداخلت پر روک لگانے اور سرکاری کام میں ایل جی کے ذریعہ رخنہ پیدا نہ کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔
اس عرضی پر سماعت کرتے ہوئے 30 اپریل کو مدراس ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا اور کہا کہ لیفٹیننٹ گورنر کرن بیدی کے پاس پڈوچیری کے وزیر اعلیٰ نارائن سامی کے کام میں مداخلت کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ لیفٹیننٹ گورنر کے پاس پڈوچیری حکومت سے کوئی دستاویز مانگنے کا حق بھی نہیں ہے۔
مدراس ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ وزیر اعلیٰ نارائن سامی کے لیے بڑی جیت قرار دی جا رہی ہے۔ نارائن سامی کرن بیدی پر بغیر کسی صلاح کے فیصلے لینے و ان کی حکومت کے فیصلوں کو منظوری نہ دینے کے الزام لگاتے رہے ہیں، لیکن اب مدراس ہائی کورٹ نے کرن بیدی کو واضح لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ وہ سرکار کے روز مرہ کے کاموں میں رخنہ اندازی نہ کریں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 30 Apr 2019, 2:10 PM