ملک کے مفاد میں نہیں شہریت قانون، مدھیہ پردیش میں نہیں ہوگا نافذ: کمل ناتھ
کمل ناتھ کا کہنا ہے کہ جب کوئی قانون بنایا جاتا ہے تو اس میں صاف طور پر لکھا جاتا ہے کہ قانون میں کیا ہوگا اور کیا نہیں۔ لیکن شہریت قانون میں کیا ہوگا یہ تو ہے، لیکن کیا نہیں ہوگا اس کا ذکر نہیں ہے۔
مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ کمل ناتھ نے ایک بار پھر مرکز کی مودی حکومت کے ذریعہ پاس کردہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کو ریاست میں نافذ نہ کیے جانے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قانون بناتے وقت اور بڑے فیصلوں کے وقت اتفاق رائے قائم کرنے کی کوششیں ہوتی ہیں، لیکن شہریت قانون کے لیے اتفاق رائے کا نہیں بلکہ ’حمایت‘ کا سہارا لیا گیا۔
پارلیمنٹ میں یہ قانون پاس کیے جانے کے بعد سے اس کی مخالفت اور حمایت میں لوگ آواز اٹھا رہے ہیں۔ مدھیہ پردیش ان ریاستوں میں ہے جہاں کے وزرائے اعلیٰ صاف کر چکے ہیں کہ وہ اپنی ریاست میں اس قانون کو نافذ نہیں ہونے دیں گے۔ کمل ناتھ نے خبر رساں ادارہ آئی اے این ایس کے ساتھ بات چیت کے دوران کہا کہ ’’ریاست میں کسی بھی حالت میں شہریت قانون کو نافذ نہیں ہونے دیا جائے گا کیونکہ یہ قانون ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔‘‘
کمل ناتھ کا کہنا ہے کہ ’’جب بھی کوئی قانون بنایا جاتا ہے تو اس میں صاف طور پر لکھا جاتا ہے کہ قانون میں کیا ہوگا اور کیا نہیں ہوگا۔ لیکن شہریت قانون میں کیا ہوگا یہ تو ہے، لیکن کیا نہیں ہوگا اس کا ذکر نہیں ہے۔ اسی کو لے کر سبھی فکر مند ہیں۔ کیا نہیں ہوگا، اس کا تذکرہ ہی نہیں ہے۔ اسی میں بی جے پی کا پوشیدہ ایجنڈا موجود ہے۔ ہماری سوچ جوڑنے کی ہے، لیکن یہ قانون جوڑنے کے لیے نہیں ہے۔ اس لیے کانگریس اور ریاستی حکومت اس کی مخالفت کر رہی ہیں۔‘‘
اگر مرکزی حکومت یہ قانون نافذ کرنے کے لیے دباؤ بناتی ہے تو اس حالت میں وزیر اعلیٰ کا کیا رخ ہوگا؟ اس سوال کے جواب میں کمل ناتھ نے کہا کہ ’’قانون بناتے وقت اس بات کا دھیان رکھا جاتا رہا ہے کہ اس معاملے میں سبھی کا اتفاق ہو، لیکن ایسا کچھ مرکزی حکومت نے نہیں کیا۔ اگر مرکزی حکومت شہریت قانون کو نافذ کرنے کے لیے ریاستی حکومت پر دباؤ بنائے گی تو یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ اس قانون میں سبھی کا اتفاق نہیں ہے۔‘‘
ملک کی تہذیب و ثقافت پر گہرائے بحران کا حوالہ دیتے ہوئے کمل ناتھ نے کہا کہ ’’ہماری ثقافت ہی ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔ آج اسی پر حملہ ہو رہا ہے، یہ باعث فکر ہے۔ این آر سی کی بات کی جا رہی ہے، یہ کیا ہے، یہ پتہ ہے، اس میں ایک بنیادی بات ہے۔ جب نام درج کرانے جائیں گے تو متعلقہ فرد سے اس کا مذہب پوچھا جائے گا۔ جب مذہب کا ذکر کیا جائے گا تو وہ ثبوت پوچھے گا، ثبوت کس کے پاس ہے۔ نسلوں کا حساب مانگا جائے گا۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔