وینکیا نائیڈو نے اپنی پوری زندگی ہندوستان کی خدمت میں وقف کردی: وزیراعظم
نائب صدر بننے کے بعد وینکیا نائیڈو نے مختلف اقدامات کیے جس سے اس عہدے کے وقار میں بھی اضافہ ہوا۔ وہ راجیہ سبھا کے ایک شاندار چیئرپرسن تھے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ کل ہندوستان کے سابق نائب صدر اور قابل احترام سیاست داں ایم وینکیا نائیڈو 75 برس کے ہو گئے میں ان کی طویل اور صحت مند زندگی کے لیے دعا گو ہوں اور ان کے تمام خیر خواہوں اور حامیوں کو بھی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ یہ ایک ایسے رہنما کا جشن منانے کا موقع ہے جس کی زندگی کا سفر لگن موافقت اور عوامی خدمت کے لیے غیر متزلزل وابستگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔سیاسی میدان میں اپنے ابتدائی دنوں سے لے کر نائب صدر کے طور پر خدمت انجام دینے تک، وینکیا نائیڈو کا کیریئر ہندوستانی سیاست کی پیچیدگیوں کو آسانی اور عاجزی کے ساتھ سمجھنے کی ان کی منفرد صلاحیت کی مثال ہے۔ ان کی فصاحت، بلاغت اور ترقیاتی امور پر ثابت قدمی کی وجہ سے سبھی پارٹیاں ان کا احترام کرتی ہیں۔
وینکیا نائیڈو اور میں کئی دہائیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں۔ ہم نے ساتھ کام کیا ہے اور میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ان کی زندگی میں اگر کوئی چیز مشترک رہی ہے تو وہ ہے لوگوں سے محبت۔ سرگرمی اور سیاست کے ساتھ ان کا تعلق آندھرا پردیش میں ایک طالب علم رہنما کے طور پر طلبہ کی سیاست سے شروع ہوا۔ ان کی قابلیت،تقریری اور تنظیمی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ان کا کسی بھی سیاسی پارٹی میں خیر مقدم کیا جاتا لیکن انہوں نے سنگھ پریوار کے ساتھ کام کرنے کو ترجیح دی کیونکہ وہ نیشن فرسٹ کے وژن سے متاثر تھے۔
وینکیا نائیڈو ہمیشہ سے ہی انتہائی خطرناک لہروں کے بیچ تیراکی کرنے میں ماہر رہے ہیں۔ 1978 میں، آندھرا پردیش نے کانگریس کو ووٹ دیا لیکن انھوں نے اس رجحان کو شکست دی اور ایک نوجوان ایم ایل اے کے طور پر منتخب ہوئے۔ پانچ سال بعد، جب این ٹی آر کی سونامی نے ریاست کو اپنی زد میں لے لیا، وہ بی جے پی ایم ایل اے کے طور پر منتخب ہوئے، اس طرح ریاست بھر میں بی جے پی کی ترقی کی راہ ہموار ہوئی۔
1990 کی دہائی میں بی جے پی کی مرکزی قیادت نے وینکیا نائیڈو کی کوششوں پر دھیان دیا اور اس طرح 1993 میں قومی سیاست میں ان کے دور کا آغاز ہوا جب انہیں پارٹی کا آل انڈیا جنرل سکریٹری مقرر کیا گیا۔ یہ واقعی میں ایک ایسے شخص کے لیے ایک قابل ذکر لمحہ تھا، جو ایک نوجوان کے طور پر اٹل جی اور اڈوانی جی کے دوروں کا اعلان کرتا رہتا تھا، اور اب براہ راست ان کے ساتھ کام کر رہا تھا۔ جنرل سکریٹری کے طور پر، ان کی توجہ اس بات پر تھی کہ کس طرح ہماری پارٹی کو اقتدار میں لایا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ملک کو بی جے پی کا پہلا وزیر اعظم ملے۔ دہلی منتقل ہونے کے بعد، انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور وہ پارٹی کے قومی صدر بن گئے۔
سنہ 2017 میں، ہمارے اتحاد نے انہیں ہمارے نائب صدر کے امیدوار کے طور پر نامزد کیا۔اس وقت ہمیں ایک پریشانی کا سامنا کرنا پڑا – ہم سوچ رہے تھے کہ وینکیا نائیڈو کی جگہ کو بھرنا ناممکن ہوگا، لیکن ساتھ ہی، ہم یہ بھی جانتے تھے کہ نائب صدر کے عہدے کے لیے ان سے بہتر کوئی امیدوار نہیں ہے۔ وزیر اور رکن پارلیمنٹ کے عہدے سے استعفیٰ دیتے وقت انہوں نے جو تقریر کی تھی میں اسے کبھی نہیں بھول سکتا۔ پارٹی کے ساتھ اپنی وابستگی اور اس کی تعمیر کی کوششوں کو یاد کرتے ہوئے وہ اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکے۔ اس سے ان کی گہری وابستگی اور جذبے کی جھلک نظر آئی۔ نائب صدر بننے کے بعد انہوں نے مختلف اقدامات کیے جس سے اس عہدے کے وقار میں بھی اضافہ ہوا۔ وہ راجیہ سبھا کے ایک شاندار چیئرپرسن تھے جو اس بات کو یقینی بناتے تھے کہ نوجوان ممبران پارلیمنٹ، خواتین ممبران پارلیمنٹ اور پہلی بار منتخب ہونے والے ممبران پارلیمنٹ کو بولنے کا موقع ملے۔ انہوں نے حاضری پر بہت زور دیا، کمیٹیوں کو مزید مؤثر بنایا اور ایوان میں بحث کی سطح کو بھی بلند کیا۔
نائب صدر کے عہدے کے بعد بھی وینکیا نائیڈو نے ایک فعال عوامی زندگی گزاری ہے۔ جن مسائل کے بارے میں وہ پرجوش ہیں یا ملک بھر میں ہونے والی مختلف پیش رفتوں کے بارے میں وہ مجھے فون کرتے ہیں اور مجھ سے اس کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ میں ان سے حال ہی میں اس وقت ملا تھا جب ہماری حکومت تیسری بار اقتدار میں لوٹی تھی۔ وہ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے مجھے اور ہماری ٹیم کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ میں اس سنگ میل کے لیے ایک بار پھر انہیں مبارک باد دیتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ نوجوان کارکن، منتخب نمائندے اور وہ تمام لوگ جو خدمت کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں ان کی زندگی سے سیکھیں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔