جس نے جیتی دہلی، اسی نے ملک پر راج کیا، 22 سالوں سے سلسلہ جاری
دیکھنا یہ ہے کہ کیا گزشتہ 22 سال کی تاریخ پھر دوہرائی جائے گی، یعنی جو پارٹی دہلی میں فتح حاصل کرتی ہے وہی مرکز میں حکومت بنائے گی یا یہ ریکارڈ ٹوٹ جائے گا۔
نئی دہلی: ملک کی راجدھانی دہلی میں ویسے تو لوک سبھا کی صرف سات سیٹیں ہیں، مگر گزشتہ 22 برسوں کے دوران ہونے والے پانچ عام انتخابات کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو جس نے دہلی کی ان پارلیمانی سیٹوں پر فتح حاصل کی، اسی کی مرکز میں حکومت بنی۔
ویسے بھی یہ عام سوچ ہے کہ دہلی کی ساتوں لوک سبھا سیٹوں پر ہار جیت ملک کے موڈ کا بھی اشارہ دیتا ہے۔ اس بار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) جہاں 2014 کے انتخابات میں ساتوں سیٹوں پر ملی جیت کو ایک بار پھر دوبارہ حاصل کرنے میں لگی ہوئی ہے تو وہیں کانگریس بدلہ لینے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی۔
عام آدمی پارٹی (آپ)، جس نے دہلی اسمبلی کے انتخابات میں 70 میں سے 67 سیٹیں جیت کر تمام سیاسی پنڈتوں کے فارمولیشن کو مکمل طور پر جھٹلا دیا تھا، وہ بھی پورے دم خم کے ساتھ تال ٹھونک رہی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ سہ رخی مقابلے میں دہلی کی سات پارلیمانی سیٹوں پر اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
دہلی کی سات لوک سبھا سیٹوں کی تاریخ کو دیکھا جائے تو 1998 سے ایسا اتفاق ہوا ہے کہ جس نے ان سیٹوں کو جیتا، اسی نے مرکز میں اقتدار کا مزہ چکھا۔ سال 1998 کے عام انتخابات میں بی جے پی نے دہلی کی سات سیٹوں میں سے چھ پر فتح حاصل کی۔ اس وقت قرول باغ سیٹ ریزروڈ ہوا کرتی تھی اور اس پر کانگریس کی میرا کمار فتح ہوئی تھیں۔ سال 1998 میں اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں مرکز میں قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کی حکومت قائم ہوئی۔
کئی پارٹیوں کے تعاون سے بنے این ڈی اے اتحاد کی حکومت زیادہ دن نہیں چل پائی اور صرف 13 ماہ کے اندر اس حکومت کا زوال ہو گیا۔ اس کے بعد 1999 میں دوبارہ عام انتخابات ہوئے، ان انتخابات میں بی جے پی کی جھولی میں دہلی کی ساتوں نشستیں آئیں اور اس کے بعد ایک بار واجپئی کی قیادت میں مرکز میں اتحاد والی حکومت بنی اور اس نے اپنی میعاد مکمل کی۔
سال 2004 میں دہلی میں سیٹوں کے حساب سے 1998 کی تاریخ کو دوہرایا گیا لیکن اس بار بی جے پی کی جگہ کانگریس نے سات میں سے چھ نشستیں جیتیں جبکہ بی جے پی صرف جنوبی دہلی کی نشست ہی حاصل کر پائی۔ انتخابات میں بی جے پی کے وجے کمار ملہوترا نے کانگریس کے آر کے آنند کو شکست دی۔ کانگریس کے ڈاکٹر منموہن سنگھ کی قیادت میں مرکز میں متحدہ ترقی پسند اتحاد (یو پی اے) کی حکومت بنی۔
پندرهویں لوک سبھا کے لئے پارلیمانی سیٹوں کی حد بندی کے بعد 2009 کے عام انتخابات میں کانگریس نے دہلی کی تمام ساتوں سیٹوں پر فتح پائی اور ڈاکٹر سنگھ ایک بار پھر ملک کے وزیر اعظم بنے۔ سولہویں لوک سبھا میں نظارہ بالکل الگ تھا۔ کانگریس دہلی کی ایک بھی سیٹ نہیں بچا پائی اور مرکز میں بھی اس کی حکومت کو جانا پڑا۔
بی جے پی نے نریندر مودی کی قیادت میں سولہواں لوک سبھا انتخاب لڑا اور مرکز میں حکومت بنائی۔ تیس سال کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب مرکز میں پہلی بار کسی پارٹی نے اکثریت کے اعداد و شمار کو پار کیا تھا۔ انتخابات این ڈی اے اتحاد کے تحت لڑا گیا تھا۔ مودی نے مرکز میں بی جے پی قیادت والی مخلوط حکومت کی قیادت کی۔
سترہویں لوک سبھا کے لئے سات مراحل میں پولنگ ہونی ہیں، پانچ مراحل کی ووٹنگ ہو چکی ہے اور چھٹے مرحلے کی پولنگ کے دوران 12 مئی کو دہلی کی تمام ساتوں سیٹوں پر ووٹ ڈالے جائیں گے، بی جے پی، کانگریس اور آپ تینوں ہی اپنی جیت کے لئے پورے دم خم کے ساتھ میدان میں ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ کیا گزشتہ 22 سال کی تاریخ پھر دوہرائی جائے گی کہ جو پارٹی دہلی میں فتح حاصل کرتی ہے وہی مرکز میں حکومت بنائے گی یا یہ ریکارڈ ٹوٹ جائے گا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔