یو پی: پرتاپ گڑھ پارلیمانی حلقے کے مسلم ووٹروں میں خاموشی اور تذبذب

مسلم رائے دہندگان اس وقت خاموش و تذبذب میں ہیں کہ وہ اپنا ووٹ کس کو دیں؟ جبکہ یہ بھی خبریں ہیں کہ بی جے پی کے سامنے جو مضبوط امیدوار ہوگا مسلم رائے دہندگان اس کی حمایت کر سکتے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

پرتاپ گڑھ: پرتاپ گڑھ پارلیمانی حلقے کے انتخاب کے لئے میدان میں خصوصی و آزاد سمیت کل آٹھ امیدوار ہیں۔ جہاں گزشتہ 2014 کے بی جے پی و اپنادل اتحاد سے اپنادل امیدوار ہربنش سنگھ مودی لہر کا بھر پور فائدہ اٹھا کر فاتح رہے۔ ان کے نزدیکی حریف بی ایس پی کے امیدوار آصف نظام الدین صدیقی دوسرے کانگریس تیسرے و سماج وادی پارٹی چوتھے مقام پر تھی۔ گزشتہ انتخاب میں سماج وادی پارٹی و بی ایس پی کے بیشتر ووٹ بی جے پی کے کھاتے میں گئے تھے۔ اس مرتبہ سیکولر پارٹیوں خصوصی طور سے سماج وادی پارٹی، بی ایس پی و لوک دل اتحاد سے بی ایس پی کے ذریعہ دلت پسماندہ و مسلم کے برعکس برہمن طبقے کو ٹکٹ دیئے جانے سے مسلم رائے دہندگان خاموش و تذبذب میں ہیں کیونکہ سیکولر پارٹیوں میں کوئی امیدوار بہتر شبیہ کا نہ ہونے کے سبب وہ کس کو ووٹ دیں؟

پرتاپ گڑھ پارلیمانی سیٹ سے خصوصی طور سے اتحاد سے بی ایس پی امیدوار اشوک ترپاٹھی، کانگریس سے راج کماری رتنا سنگھ ، جن ستہ دل سے اکشئے پرتاپ سنگھ گوپال جی و بی جے پی سے سنگم لال گپتا سمیت آٹھ امیدوار میدان میں ہیں جس میں کانگریس کی رتنا سنگھ اس سیٹ پر تین مرتبہ و اکشئے پرتاپ گوپال جی سماج وادی پارٹی سے ایک مرتبہ ممبر پارلیمنٹ رہ چکے ہیں ۔ادھر اکشئے پرتاپ سنگھ گوپال جی اس مرتبہ راجا بھیاء کی پارٹی جن ستہ دل کے امیدوار ہیں۔


گزشتہ 2014 کے پارلیمانی انتخاب کے اعداد و شمار کے بموجب بی جے پی اپنا دل ایس اتحاد سے اپنادل ایس امیدوار ہری بنش سنگھ 375789۔ بی ایس پی آصف نظام الدین صدیقی 207567، سماج وادی پارٹی پرمود پٹیل 120107، کانگریس رتناسنگھ کو 138620 ووٹ موصول ہوئے تھے۔ 2009 کے انتخاب میں سماج وادی پارٹی سے اکشئے پرتاپ سنگھ کو 121252، کانگریس کی رتناسنگھ کو 169137، بی جے پی سے لکشمی نرائن پانڈے کو 45575، بی ایس پی سے شیوا کانت اوجھا کو 139358 اور اپنا دل سے عتیق احمد کو 108211 ووٹ حاصل ہوئے تھے جبکہ 2019 کے پارلیمانی انتخاب میں ضلع سے راجا بھیاء کی پارٹی جن ستہ دل کے آنے سے ٹھاکر طبقے کے بیشتر رائے دہندگان راجا کے ساتھ کھل کر آگئے ہیں۔

ادھر اتحاد سے برہمن امیدوار اشوک ترپاٹھی کو بی ایس پی کا ٹکٹ ملنے کے بعد بنیادی رائے دہندگان میں گفتگو موضوع ہے کہ اپنا ووٹ دے کر ہم پھر اپنے اوپر عذاب کیسے مسلط کریں۔ جبکہ برہمن طبقے کے 90 فیصدی رائے دہندگان بی جے پی کے ساتھ ہیں۔ ایسے میں لوگوں کا کہنا ہے کہ برہمنوں کے دو تین فیصدی ووٹ انہیں حاصل ہو سکتے ہیں۔ گزشتہ 2014 کے انتخاب میں مسلم رائے دہندگان نے اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے آصف نظام الدین صدیقی کی حمایت کی تھی۔ انہیں مسلمانوں کے خالص ایک لاکھ 80 ہزار ووٹ موصول ہوئے تھے۔ بقیہ 27 ہزار ووٹ بی ایس پی کے بنیادی ووٹ تھے۔


بی ایس پی امیدوار اشوک ترپاٹھی کو خوش فہمی ہے کہ مسلم و دلت ان کو چھوڑ کر جانے والا نہیں ہے جبکہ مسلم رائے دہندگان میں ان کی اچھی شبیہ نہ ہونے کے سبب لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں حمایت کرنا بی جے پی کے مساوی ہے۔ سماج وادی پارٹی کے 2009 کے انتخاب کے بعد 2014 میں ووٹ گھٹے ہیں۔ بی ایس پی کو 2009 اور 2014 کے انتخاب میں مسلمانوں کی حمایت سے گراف بڑھا ضرور ہے۔ اس کے برعکس 2019 کے انتخاب میں بی ایس پی کو تقریباً دو تین فیصدی برہمنوں کی حمایت حاصل ہو سکتی ہے۔

مسلم رائے دہندگان اس وقت خاموش و تذبذب میں ہیں کہ وہ اپنا ووٹ کس کو دیں؟ جبکہ یہ بھی گفتگو ہے کہ بی جے پی کے سامنے جو مضبوط امیدوار ہو گا مسلم رائے دہندگان اس کی حمایت کر سکتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 01 May 2019, 7:10 PM