لوک سبھا انتخابات: کتنا ہی بڑا انتخابی نقصان کیوں نہ ہو، سیاسی پارٹیوں کو سخت فیصلے تو لینے ہوں گے...سید خرم رضا

برج بھوشن ہی کیوں، بر سر اقتدار جماعت نے ہزاروں جنسی ویڈیو بنانے کے ملزم پرجول ریونا کی پارٹی کے ساتھ اتحاد کیا اور ایسے شخص کو نہ صرف اپنا امیدوار بنایا بلکہ عوام سے انہیں جتانے کے لئے بھی اپیل کی

<div class="paragraphs"><p>سوشل میڈیا</p></div>

سوشل میڈیا

user

سید خرم رضا

کچھ دنوں بعد لوک سبھا انتخابات کے تیسرے مرحلہ کے لئے ووٹ ڈالے جانے ہیں اور اس وقت سب کے، خاص طور سے پارٹیوں، امیدواروں اور ورکرس کے لئے چناوی بخار اپنے شباب پر ہے۔ رائے دہندگان کی جانب سے جس بے رخی کا مظاہر کیا جا رہا ہے اس کی چرچا تمام مبصرین کر رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ کوئی حتمی رائے بھی نہیں دے پا رہے۔ تین روز کے لئے تو ایسا لگا جیسے پورا ہندوستان امیٹھی، رائے بریلی اور راہل گاندھی تک سمٹ گیا ہے۔ مرکزی ذرائع ابلاغ سے لے کر یو ٹیوب پر عام لوگ یہ جاننا چاہ رہے تھے کہ راہل امیٹھی سے لڑ رہے ہیں یا رائے بریلی سے؟ اس میں کوئی دو رائے نہیں اور یہ آسان بھی نہیں کہ اس دور میں کانگریس تین دنوں تک ذرائع ابلاغ پر موضوع بحث رہے۔

اب جب یہ طے ہو گیا ہے کہ راہل گاندھی رائے بریلی سے لڑ رہے ہیں اور امیٹھی سے یعنی اسمرتی ایرانی کے مقابلے پر کانگریس نے کشوری لال شرما کو اپنا امیدوار بنایا ہے اور ان کی سیاست میں سب سے بڑی حصولیابی یہی ہے کہ وہ کانگریس اور گاندھی خاندان کے وفادار  ہیں۔ کچھ نے اسے کانگریس کی شاندار حکمت عملی کہا تو وزیر اعظم نے اس پر اپنی رائے کا اظہار ’ڈرو مت اور بھاگو مت‘ جیسے القاب سے کیا۔ امیٹھی کے لوگ راہل گاندھی کو اپنا امیدوار دیکھنا چاہتے تھے اور اس لئے اعلان کے بعد ان کے چہروں پر  مایوسی صاف نظر آئی لیکن شام تک انہوں نے کانگریس حامیوں کے بیانیہ کو دہرانا شروع کر دیا کہ راہل خود کو امیٹھی تک محدود نہیں کرنا چاہتے تھے، پرینکا گاندھی کے لئے راہل سیٹ خالی کر دیں گے، کانگریس اسمرتی ایرانی کو غیر ضروری اہمیت نہیں دینا چاہتی تھی، کشوری لال کی امیدواری سے اسمرتی ایرانی کے اوپر دباؤ بڑھ جائے گا کہ وہ کہیں کانگریس کے ایک ورکر سے نہ ہر جائیں  وغیرہ وغیرہ۔


یہ سب انتخابات کا حصہ ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہئے کیونکہ اسی کو ہی سیاست کہا جاتا ہے کہ کس مہرے کو کہاں چلنا ہے اور کتنا چلنا ہے لیکن سیاست صرف اور صرف جیتنے کے لئے نہیں ہونی چاہئے بلکہ سیاست کی کچھ قدریں بھی ضروری ہیں۔ اگر بر سر اقتدار بی جے پی پرگیا ٹھاکر اور رمیش بڈھوڑی کا ٹکٹ کاٹنے کی ہمت کر سکتی ہے اور یہ پیغام دینے کی کوشش کر سکتی ہے کہ وہ ان کے بیان اور حرکات سے متفق نہیں ہے تو پھر برج بھوشن شرن سنگھ کے آگے اتنی کیوں مجبور نظر آ تی ہے کہ اس کے بیٹے کو ٹکٹ دینا انتخابات جیتنے کے لئے ضروری سمجھتی ہے؟ جس شخص کے خلاف ملک کی میڈل یافتہ خاتوں پہلوان سڑکوں پر احتجاج کرتی ہیں اور پولیس  کی کارروائی ہوتی ہے تو  کیا ایسے شخص کو اور اس کے رشتہ داروں کو اپنا امیدوار بنانے سے اس وقت تک پرہیز نہیں کیا جا سکتا جب تک متعلقہ شخص ایسے معاملے سے بری نہ ہو جائے۔

صرف برج بھوشن تک ہم کیوں محدود رہیں، پرجول ریونا، جن کے خلاف مبینہ طور پر دو ہزار سے زیادہ جنسی ویڈیو بنانے کا الزام ہے، ان کی پارٹی کے ساتھ بر سر اقتدار جماعت اتحاد کر لے اور ایسے شخص کو نہ صرف اپنا امیدوار بنایا بلکہ عوام سے انہیں جیتانے کے لئے بھی اپیل کی۔ ویسے تو برج بھوش اور پرجول ریونا جیسے لوگوں کو خود ہی امیدوار ی کے لئے اپنا نام نہیں پیش کرنا چاہئے اور اگر وہ پیش بھی کر دیتے ہیں تو ان کا ریکارڈ دیکھتے ہوئے ان کا ٹکٹ کاٹ دینا چاہئے چاہے انتخابی طور پر کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو۔


انتخابات میں الزامات اور ایک دوسرے کے اوپر حملے سیاسی پارٹیاں اور قائدین کرتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کی سیاسی پارٹی مضبوط ہو اور ان کے مخالفین کمزور ہوں لیکن ہمارے قائدین نے جو معیار انتخابی جلسوں سے اپنے خطاب میں اپنایا ہوا ہے وہ بہت تکلیف دہ ہے۔ ہم کب پاکستان اور ملک کے  مسلمانوں پر حملوں سے باہر آئیں گے۔ ہمیں اگر ترقی کرنی ہے تو عوام کے بنیادی مدوں سے انتخابات کو جوڑنا پڑے گا اور اس کا حل عوام کے پاس ہی ہے کیونکہ اگر عوام اپنے مسائل پر رائے دیں گے تو سیاسی قائدین اور پارٹیاں بھی جذباتی مدوں سے پرہیز کریں گی اور عوام کے مدوں پر بات کریں گی لیکن نہ جانے کب ملک کے عوام اپنے مسائل پر بات کریں گے۔ سیاسی پارٹیاں اور قائدین صرف وہی چیزیں دہراتے ہیں جو عوام سننا چاہتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔