لوک سبھا انتخابات 2024: روچی ویرا کو مرادآباد سے امیدوار قرار دینا، سماجوادی پارٹی اعلیٰ کمان کی سوچی سمجھی حکمت عملی!
روچی ویرا نے اکھلیش یادو اور اعظم خان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا، ’’میں مرادآباد سے انڈیا اتحاد کی امیدوار ہوں۔ پورے دم خم کے ساتھ الیکشن لڑوں گی۔ میں مرادآباد کے لوگوں کا دل جیتنے آئی ہوں‘‘
مرادآباد: پارلیمانی انتخابات کے پہلے مرحلہ کی مہم میں سبھی پارٹیوں کے امیدوار عوام کو اپنی جانب راغب کرنے میں لگے ہیں مگر انڈیا اتحاد میں شامل سماج وادی پارٹی کی امیدوار روچی ویرا کو کئی مسائل کا سامنا کرنے کے ساتھ عوام کو بھی مطمئن کرنا پڑ رہا ہے۔ روچی ویرا ضلع بجنور سے تعلق رکھتی ہیں، اس وجہ انہیں بیرونی امیدوار بھی قرار دیا جا رہا ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ ان کی پیدائش مرادآباد میں ہوئی اور ان کا خاندان آج بھی اسی ضلع میں ہے لہذا وہ اس شہر کے لیے اجنبی نہیں ہیں۔
روچی ویرا نے اپنے کاغذات نامزدگی داخل کرنے کے بعد سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو اور پارٹی کے سینئر لیڈر اعظم خان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا، ’’میں مرادآباد سے انڈیا اتحاد کی امیدوار ہوں۔ پورے دم خم کے ساتھ الیکشن لڑوں گی۔ میں مرادآباد کے لوگوں کا دل جیتنے آئی ہوں۔‘‘
روچی ویرا کی اصل پریشانی سماج وادی پارٹی کی دھڑے بندی ہے۔ انہیں موجودہ رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر ایس ٹی حسن کا ٹکٹ کاٹ کر یہاں سے امیدوار بنایا گیا ہے، اس لئے اُنہیں ڈاکٹر حسن اور ان کے چند حامیوں کی مخالفت کا بھی سامنا ہے۔ اس بار مرادآباد پارلیمانی حلقہ کے عوام کی رائے کانگریس کے حق میں تھی مگر اتحاد کی وجہ سے یہ سیٹ سماج وادی پارٹی کے حصہ میں آئی۔ کئی دہائیوں میں ایسا پہلی بار ہے کہ سماج وادی پارٹی کی اُمیدوار کو کانگریس کا ساتھ ہونے کا فائدہ حاصل ہوگا۔ کانگریس سے جڑے مقامی لیڈران اور کارکنان پوری طاقت سے روچی ویرا کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں البتہ سماج وادی پارٹی میں گٹ بازی تاحال ختم نہیں ہوئی ہے۔
کانگریس پارٹی کے بلدیہ ممبر صدام حسین نے اپنے وارڈ میں روچی ویرا کی ایک میٹنگ کا انعقاد کیا جس میں سماج وادی پارٹی کے کچھ کارکنوں نے ایس ٹی حسن کی حمایت کرتے ہوئے ہنگامہ کیا اور کہا کہ ڈاکٹر حسن کو منانے کی کو شش نہیں کی جا رہی۔ تاہم روچی ویرا کا کہنا ہے کہ انہیں پارٹی اعلیٰ کمان نے امیدوار بنایا ہے اور وہ جانتی ہے کہ جیت کے لیے کس سیٹ پر کیا حکمت عملی اپنائی جائے۔ انہوں نے اعادہ کیا کہ ڈاکٹر حسن ان کے بھائی ہیں اور وہ ان کے پاس بھی ضرور جائیں گی۔ روچی ویرا کا کہنا تھا کہ جب کسی کا ٹکٹ کاٹ دیا جاتا ہے کتنی تکلیف ہوتی ہے اور ان کی ناراضگی جائز ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایس ٹی حسن پارٹی کی حمایت نہیں کریں گے۔
سماج وادی پارٹی کے دفتر پر بھی ایک میٹنگ منعقد ہوئی جس میں پارٹی کے وادی کے عوامی نمائندوں کے ساتھ مقامی لیڈران اور کارکن شامل ہوئے کانگریس پارٹی کے ضلع اور شہر صدر بھی اپنی پوری یونٹ کے ساتھ اس میٹنگ میں موجود تھے۔ سبھی کا کہنا تھا کہ آپسی ناراضگی کو بھلا کر اتحاد کی اُمیدوار کو جیتانے کی کوشش کرنا ہے۔
اس مووقع پر روچی ویرا نے کہا کہ فرقہ پرست طاقتو ں کوزیر کرنے کے لئے وہ سب کچھ بھول کر انڈیا اتحاد کا ساتھ دیں گے کیوں کہ کانگریس لیڈر راہل گاندھی، پرینکا گاندھی اور ہمارے لیڈر اکھلیش یادو کا مقصد ملک کے سیکولر نظام کو مزید تقویت دینا ہے، جس کے لئے ہم سبھی کو انکا ساتھ دینا ہے۔
دریں اثنا، سماج وادی پارٹی کے ٹھاکردوارا سے رکن اسمبلی، کانٹھ سے رکن اسمبلی کمال اختر، سابق رکن اسمبلی شہر حاجی یوسف انصاری، راجیش یادو، رضوان احمد، اطہر انصاری، لائق انصاری، ضلع صدر ڈی پی یادو، سیکریٹری مدثر خان، شہر صدر اقبال انصاری، کانگریس ضلع صدر اسلم خورشیدِ، شہر صدر انوبھو ملہوترا سمیت سبھی نے حلف لیا کے ہم اتحاد کی اُمید وار کو کامیاب بنانے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔
سماجوادی پارٹی کے ضلع صدر ڈی پی یادو نے کہا، ’’روچی ویرا سماجوادی پارٹی کی امیدوار ہیں۔ پارٹی کے عہدیداران ان کے لیے پورے دل و جان سے مہم چلائیں گے۔ ہم ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، نفرت کی سیاست اور بے روزگاری کے مسائل کو اٹھا کر بی جے پی کو شکست دینے کا کام کریں گے۔ لوگ بی جے پی کی حکومت سے بہت تنگ ہیں۔ اس کا فائدہ ایس پی کو ہوگا۔‘‘
رپورٹ کے مطابق روچی ویرا 2014 سے 17 تک بجنور سے سماجوادی پارٹی کی رکن اسمبلی رہیں۔ انہوں نے اس کے بعد 2022 میں بی ایس پی سے الیکشن لڑا لیکن ہار گئیں۔ روچی ویرا 2023 میں پھر سے سماجوادی پارٹی میں شامل ہو گئیں اور انہیں اعظم خان کے قریب سمجھا جاتا ہے۔ مقامی سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ روچی ویرا بھلے ہی بی ایس پی سے علیحدہ ہو گئی ہیں لیکن ان کی دلت ووٹروں پر پکڑ مضبوط ہے۔ سماجوادی پارٹی کی اعلیٰ کمان نے اسی کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوچ سمجھ کر ہی ایس ٹی حسن کی جگہ روچی ویرا کو امیدوار بنایا ہے۔
دوسری طرف بی جے پی امیدوار کنور سرویش کمار، لگاتار مرادآباد سے الیکشن لڑ رہے ہیں ان کے خلاف بھی دھڑے بندی ہو رہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سرویش ایک ٹھاکر امیدوار ہیں اور راجپوت طبقہ میں اس بات کو لے کر ناراضگی ہے کہ ان کے طبقہ کو لگاتار نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ اس بغاوت کو روکنے کے لیے خود امت شاہ فعال ہو گئے ہیں۔ تاہم ایس ٹی حسن کے بجائے روچی ویرا کے سامنے نہ ہونے سے بی جے پی کے ووٹروں میں مزید تقسیم ہو سکتی ہے۔
وہیں، اعداد و شمار بھی سماجوادی پارٹی کے حق میں نظر آ رہے ہیں۔ سال 2019 کے لوک سبھا الیکشن کی بات کریں تو اس الیکشن میں ڈاکٹر ایس ٹی حسن کو کل ووٹروں میں سے 33.15 فیصد کی حمایت حاصل ہوئی تھی، جبکہ ڈالے گئے ووٹوں میں سے 50.65 فیصد انہیں ملے۔ بی جے پی امیدوار کنور سرویش کمار اس سیٹ پر دوسرے نمبر پر رہے، انہوں نے 551538 ووٹ حاصل کیے، جو کہ پارلیمانی سیٹ کے کل ووٹروں کے 28.15 فیصد کی حمایت تھی اور انہوں نے کل ڈالے گئے ووٹوں کا 43.01 فیصد حاصل کیا۔ 2019 میں اس نشست پر جیت کا مارجن 97878 تھا۔
اس سے قبل سال 2014 میں ہوئے عام انتخابات کے دوران مرادآباد لوک سبھا سیٹ پر 1771985 ووٹر رجسٹرڈ تھے۔ اس الیکشن میں بی جے پی پارٹی کے امیدوار کنور سرویش کمار نے کل 485224 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی تھی۔ انہیں لوک سبھا حلقہ کے کل ووٹروں میں سے 27.38 فیصد کی حمایت حاصل تھی اور انہوں نے اس انتخاب میں ڈالے گئے ووٹوں کا 43.01 فیصد حاصل کیا۔ دوسری طرف ایس پی پارٹی کے امیدوار ڈاکٹر ایس ٹی حسن، 397720 ووٹوں کے ساتھ دوسرے مقام پر رہے۔ انہوں نے لوک سبھا سیٹ کے کل ووٹروں کا 22.44 فیصد اور ڈالے گئے ووٹوں کا 35.26 فیصد حاصل کیا۔ لوک سبھا انتخابات 2014 میں اس پارلیمانی سیٹ پر جیت کا فرق 87504 تھا۔
غورطلب ہلے کہ 2014 میں جب سماجوادی پارٹی تنہا مقابلہ کر رہی تھی تو اسے صرف 35.26 ووٹ ہی حاصل ہو سکے تھے لیکن جب 2019 میں سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی اتحاد میں تھی تو ایس ٹی حسن کے ووٹوں میں نمایا اضافہ (50.65) ہوا۔ اب کیونکہ 2024 کے عام انتخابات میں روچی ویرا امیدوار ہیں جو دلت طبقہ پر بھی اثر رکھتی ہیں تو اس فائدہ سماجوادی پارٹی کو ضرور ہوگا۔ تاہم بی ایس پی نے یہاں سے عرفان سیفی کو امیدوار بنا کر مسلم ووٹوں میں تقسیم کی کوشش کی ہے لیکن اگر روچی ویرا نے درپیش مسائل کو حل کر لیا اور جوش و خروش کے ساتھ مہم چلائی تو کانگریس کے ساتھ ہونے کی وجہ سے یہ تقسیم کم سے کم ہو جائے گی اور انہیں کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔