وارانسی اور گورکھپور میں بھی بی جے پی کے لیے راہیں ناہَموار
شمالی یو پی میں اس بار ماحول بی جے پی کے خلاف ہے۔ اسی علاقے میں پی ایم مودی کا پارلیمانی حلقہ وارانسی ہے۔ جس طرح کے حالات ہیں، اس سے صاف ہے کہ اس بار انھیں یہاں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
انتخابی ماحول میں شمالی اتر پردیش کے وارانسی اور گورکھپور کا تذکرہ ان دنوں کچھ الگ اسباب کی بنا پر ہو رہا ہے۔ گورکھپور میں یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی ’کارگزاریوں‘ کو تو لوگ دیکھ ہی رہے ہیں۔ وارانسی وزیر اعظم نریندر مودی کا پارلیمانی حلقہ ہے۔ ان پارلیمانی حلقوں میں جو کچھ نظر آ رہا ہے اس سے صاف ہے کہ اس بار امیدواروں کو لوہے کے چنے چبانے پڑ سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ مودی اقتدار کے تابوت میں آخری کیل وارانسی میں ہی ٹھوکی جائے۔
ایک بات تو طے ہے کہ پورے شمالی اتر پردیش علاقے میں روزگار سب سے بڑا ایشو ہے اور فطری طور پر بی جے پی کے لیے یہ راستہ اب ناہموار معلوم پڑ رہا ہے۔ اسے الٰہ آباد ضلع کورٹ میں وکیل اندر کانت پانڈے کی اس بات سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ایشو تو روزگار ہی ہے۔ زراعت میں چھوٹی جوت ہونے اور فائدہ کا سودا نہ ہو پانے کے سبب کوئی بھی نوجوان زراعت نہیں کرنا چاہتا، اسے ملازمت چاہیے اور ریاست میں ہی ملازمت چاہیے۔
دوسرا سب سے بڑا ایشو کھیتی کسانی ہے۔ رانی گنج میں سوامی کرپاتری جی انٹر کالج کے پرنسپل ڈاکٹر رام کمار پانڈے اسے اس طرح بتاتے ہیں ’’مہنگی تعلیم ہونے کے باوجود زراعت کرنے والا کسان بیٹے کو اس امید سے پڑھاتا ہے کہ اس کے بھی دن اچھے آئیں گے۔ لیکن اسے کھیت فروخت کرنے کو مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔‘‘ کشی نگر ضلع میں چھتونی کے گنا کسان برجیش مل بھی کہتے ہیں کہ تقریباً تین لاکھ قیمت کا گنا فروخت کیا ہے۔ تقریباً 14 دن گزر گئے لیکن ادائیگی نہیں ہوئی۔ علی اور بجرنگ بلی سے ضروری ہے گنے کی ادائیگی۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنے وزیر اعلیٰ سے امیدیں تھیں لیکن مایوسی ہاتھ لگی۔
ویسے اب کئی علاقوں میں امیدواروں کی سرگرمی نظر آنے لگی ہے۔ کشی نگر سے کانگریس امیدوار اور سابق مرکزی وزیر کنور آر پی این سنگھ کی حویلی پر صبح سے ہی سیاسی سرگرمیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ راج گھرانے سے تعلق رکھنے والے آر پی این ہوائی چپل پہن کر ہی رابطہ کرنے نکل پڑتے ہیں۔ کسیا کے باشندہ 80 سالہ بزرگ وجے کشواہا کہتے ہیں کہ آر پی این نے ہی کشی نگر میں سڑکوں کا جال بچھایا، لیکن ذات کے جال میں الجھے سیاسی منظرنامے میں جیت کے الگ الگ پیمانے ہو گئے ہیں۔
مہاراج گنج سے کانگریس امیدوار سپریا شری نیت کی انتخابی تشہیر الگ انداز کی ہے۔ میڈیا سے سیاست کی پچ پر اتر کر رکن پارلیمنٹ والد ہرش وردھن کی وراثت سنبھالنے پہنچی سپریا لوگوں کے درمیان پہنچ کر یہی تعارف پیش کر رہی ہیں ’’میں سپریا، ہرش وردھن کی بیٹی‘‘۔ سپریا خواتین کے درمیان پہنچ کر والد کے جدوجہد کو بتا رہی ہیں اور ووٹ کرنے کی اپیل کر رہی ہیں۔
مہاراج گنج میں دوا کاروباری پروین عرف رانو سنگھ کہتے ہیں کہ زور آور امر منی ترپاٹھی اور کاروباری سے لیڈر بنے پنکج چودھری کے اثر والے حلقے میں صرف ہمدردی جیت ہار کی بنیاد رہی ہے۔ پہلی بار علاقے میں پڑھی لکھی خاتون کے میدان میں اترنے سے لوگوں میں امید بڑھی ہے۔ لوگوں میں بھروسہ بڑھا ہے کہ دہلی میں مضبوطی سے ان کی آواز پہنچانے والا اب کوئی ہے۔
مہاراج گنج میں زور آور امرمنی ترپاٹھی کی بیٹی تنوشری ترپاٹھی بھی لندن کی پڑھائی چھوڑ کر سیاسی میدان میں ہیں۔ شیوپال یادو کی پارٹی پرگتی شیل سماجوادی پارٹی لوہیا کے بینر تلے انتخاب لڑ رہی تنوشری بھی ووٹروں کے درمیان والد کے جدوجہد کا حوالہ دے کر ووٹ کی اپیل کر رہی ہیں۔
واضح ہے کہ مشرق کے اضلاع میں بی جے پی کے لیے فتح آسان نہیں ہونے والی۔ غازی پور کے سماجی کارکن شیویندر پاٹھک کے مطابق بی جے پی گزشتہ انتخاب میں یہاں سے بازی مار لے گئی، لیکن اس بار اسے مشکل ہوگی۔ یہاں سے پچھلی بار مرکزی وزیر منوج سنہا منتخب ہو کر لوک سبھا پہنچے تھے۔ ترقی کے علاوہ ذاتی ایشوز بھی یہاں پوری طاقت سے انتخاب لڑتے ہیں، ایسے میں ایس پی-بی ایس پی اتحاد کے افضال انصاری کو یہاں مضبوطی مل سکتی ہے۔ اس رپورٹ کو لکھنے تک کانگریس نے اپنے پتّے نہیں کھولے ہیں۔
مرزا پور اور سون بھدر سٹے ہوئے اضلاع ہیں۔ مرزا پور میں سہ رخی لڑائی ہوتی نظر آ رہی ہے۔ یہاں انوپریا پٹیل اور ان کی پارٹی اپنے ذات پات والے فارمولے سے حاوی نظر آتی ہے۔ لیکن اگر ذات برادری کی بات کمزور پڑی اور ترقی ایشو ہوا تو انوپریا کو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ ایک بڑا فیکٹر امیدواروں کے باہری ہونے کا بھی ہے۔ یہاں کے رامیشور وِند کا کہنا ہے کہ کبھی پھولن دیوی تو کبھی انوپریا تو کبھی کوئی، سبھی باہری آتے ہیں اور جیت کے بعد کچھ نہیں کرتے۔ اتحاد نے بھی جس امیدوار کو اتارا ہے وہ بھی باہری ہے۔ ایسے میں یہاں سہ رخی لڑائی کا امکان ہے اور ایسا ہونے پر فائدہ کانگریس کے للتیش پتی کو مل سکتا ہے۔
سون بھدر میں اپنا دل-بی جے پی اتحاد سے پکوڑی کول امیدوار ہیں۔ ان کے سامنے ایس پی-بی ایس پی اتحاد سے سابق رکن پارلیمنٹ بھائی لال کول ہیں۔ کانگریس نے یہاں سے پرانے لیڈر بھگوتی چودھری کو ٹکٹ دیا ہے۔ شیوپال یادو کی پارٹی سے روبی پرساد ہیں۔ سون بھدر کے سنگم لال کا ماننا ہے کہ اس بار بتایا جائے گا کہ ترقی نہیں تو ووٹ نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنا دَل اور اتحاد میں ہی لڑائی ہے۔
جون پور سیٹ پر بی جے پی کو ترقی کے نام پر ووٹ لینے اور کوئی ترقی نہ کرنے کی قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔ یہاں بی جے پی نے اپنا امیدوار وہی رکھا ہے جو پچھلی بار تھا۔ جون پور شہر کے راجندر سنگھ کا کہنا ہے کہ بی جے پی امیدوار سے اب لوگوں کو بہت امید نہیں ہے۔ بی جے پی میں بھی اس فیصلے سے مایوسی ہے۔ عوام ناراض ہیں۔ ایس پی-بی ایس پی اتحاد نے یہاں سے نوکرشاہ شیام سنگھ یادو کو ٹکٹ دیا ہے۔ کانگریس سے دیوبرت مشر میدان میں ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 24 Apr 2019, 11:10 AM