لاک ڈاؤن: سہارنپور میں ’وہاٹس ایپ گروپ‘ نے غریبوں کے سر سے دور کر دی راشن کی ٹینشن

یو پی کے ضلع سہارنپور میں لاک ڈاؤن کے دوران غریبوں کو راشن کے لیے ان دقتوں کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا جن کا سامنا ریاست کے دوسرے اضلاع میں ہے۔ یہ ممکن بنایا ہے وہاٹس ایپ گروپ ’ہیلپ فار نیڈی‘ نے۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

سہارنپور: ریاض ہاشمی ایک بے پروا اور موڈی قسم کے آدمی ہیں۔ ریاض 50 کی عمر پار کر چکے ہیں اور جنونی شخصیت کے مالک ریاض وہی کرتے ہیں جو ان کا دل چاہتا ہے۔ لیکن اس بار ان کا جنون ایک مثبت عمل کو آگے بڑھا رہا ہے اور ان کی توانائی اچھے کام میں خرچ ہو رہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے جنون نے اس بار ان کی زندگی کا سب سے تسلی بخش کام کرا دیا ہے۔ ایک ایسا کام جس نے پورے سہارنپور میں انھیں شہرت دلا دی ہے۔

دراصل ریاض ہاشمی لاک ڈاؤن کے دوران سہارنپور میں ہزاروں غریبوں کے چولہے تک روٹی پہنچانے کا بہترین ذریعہ بن گئے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے اعلان تک ان کا ایسا کوئی منصوبہ نہیں تھا، لیکن 21 دن کے طویل لاک ڈاؤن میں انھیں مستقبل کی بے چینی نظر آئی۔ ایک رات انھوں نے وہاٹس ایپ گروپ بنا دیا جو اب سہارنپور کے لوگوں کے لیے مددگار ثابت ہو رہا ہے۔ ان کا یہ گروپ اب تک 50 ہزار سے زیادہ لوگوں کو کھانا کھلا چکا ہے اور دو ہزار سے زیادہ خاندانوں کو 14 دن کا راشن یعنی آٹا، چاول، چینی، تیل جیسی چیزیں دستیاب کرا چکا ہے۔


ریاض ہاشمی 'قومی آواز' کے نمائندہ سے بات چیت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ "مجھے 22 مارچ کو جنتا کرفیو کے بعد ہی لگ رہا تھا کہ لاک ڈاؤن ہونے جا رہا ہے۔ لیکن یہ لاک ڈاؤن 21 دن کا ہوگا، یہ تصور بھی نہیں کیا تھا۔ جیسے ہی اس کا اعلان ہوا، بازار میں زبردست بھیڑ پہنچ گئی کیونکہ وقت صرف 4 گھنٹے کا ملا تھا۔" انھوں نے مزید کہا کہ "ہر طرف افرا تفری کا ماحول تھا۔ بری طرح کالابازاری ہونے لگی۔ سچ کہوں تو خود ہمارے گھر میں ایک ہفتہ کا راشن تھا۔ کوئی بھی اپنے گھر راشن جمع کر کے نہیں رکھتا ہے۔ میں سہارنپور کی نس نس سے واقف ہوں۔ میں جانتا تھا کہ اس شہر میں ایک لاکھ آدمی دہاڑی کام کرنے والے ہیں۔ وہ روز کنواں کھودتے ہیں اور پانی پیتے ہیں۔ میرا تجربہ یہ بھی بتا رہا تھا کہ یہاں 20 ہزار سے زیادہ صرف لکڑی کا کام کرنے والے مزدور ہیں اور ان میں بھی زیادہ تر باہری ہیں۔ میں ڈر گیا، میں اپنے بھائی اور بیٹے سے اس ماحول کے تعلق سے بات کر ہی رہا تھا کہ ایک اور بڑی بات ہو گئی۔ میرے بیٹے کے پاس ایک لڑکے کا فون آیا جس نے بتایا کہ کھاتا کھیڑی محلہ میں 3 سگی بہنیں رہتی ہیں جو بیوہ ہیں۔ لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد لوگوں کو راشن خریدتا دیکھ ان تین بہنوں نے بھی راشن خریدنا چاہا لیکن پیسے نہیں تھے۔ مجبوراً گھر کے کچھ برتن فروخت کر کے 300 روپے حاصل کیے اور دکان جا کر راشن خریدا۔"


بیوہ بہنوں کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے ریاض ہاشمی کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ انھوں نے بتایا کہ "بیوہ بہنوں کے پڑوسی نے غلطی کی، اسے کچھ پیسے ایسے ہی دے دینے چاہیے تھے۔ لیکن مجھے لگا کہ یہ میری بھی غلطی ہے۔ یہاں کے تمام لیڈروں، امیروں، تاجروں اور سرکاری عملہ اس کا قصوروار ہے۔ میرے دل کی دھڑکن بڑھ گئی۔ ان بیوہ بہنوں کی ضروری مدد تو میں نے فوراً کر دی، لیکن اب میں سبھی ضرورت مندوں کی مدد کرنا چاہتا تھا۔ لیکن میری جیب میں اتنے پیسے نہیں تھے۔ کام بہت بڑا تھا، مجھ پر ہزاروں لوگوں کی مدد کرنے کا جنون سوار ہو گیا تھا۔ میں سچ کہہ رہا ہوں، میں اس رات کو بالکل نہیں سو پایا۔ مجھے نیند ہی نہیں آئی۔"

ریاض آگے بتاتے ہیں کہ "میں نے رات میں ہی اپنے دوستوں سے بات کی اور ایک وہاٹس ایپ گروپ بنایا۔ ہم نے اس گروپ کا نام دیا 'کووڈ-19: ہیلپ فار نیڈی' یعنی ضرورت مندوں کی مدد۔ اس کے بعد ہم نے ساتھیوں سے مدد مانگنی شروع کی۔ گروپ کے ساتھی گرپریت سنگھ بگّا نے لنگر سروس کی پیشکش کی۔ کچھ لوگوں نے راشن اور کچھ نے سینیٹائزر و ماسک دینے کی بات کہی۔ ان پیشکش کو دیکھتے ہوئے ہم نے ایک والنٹیر ٹیم بنائی۔ تھوک کے بھاؤ کم شرح میں اچھے راشن کی خریداری کی۔ معاونین سے سیدھے راشن فروخت کرنے والے کے اکاؤنٹ میں پیسہ بھیجنے کی گزارش کی گئی تاکہ پوری شفافیت قائم رہے۔"


ریاض بتاتے ہیں کہ اس کام میں لوگوں کا بہترین ساتھ ملا اور نتائج بھی اچھے برآمد ہونے لگے۔ لوگوں نے دل کھول کر مدد کی اور لنگر کی ذمہ داری گرپریت سنگھ بگّا نے خود ہی سنبھال لی۔ 18 جگہ بھوکے لوگوں کے لیے لنگر شروع کر دیا گیا اور دس دنوں میں تقریباً 40 ہزار لوگوں نے یہاں کھانا کھایا۔ گرپریت بگّا نے کھانا کھانے والوں کی تعداد اس گروپ پر جمعہ کے روز بتائی۔ انھوں نے گروپ میں کیے گئے پوسٹ میں لکھا تھا کہ اس وقت تک 3890 لوگوں کو لنگر کھلایا گیا۔

ریاض ہاشمی کا کہنا ہے کہ "حالانکہ سہارنپور میں کچھ اور لوگ بھی ہیں جو یہ اچھا کام کر رہے ہیں، لیکن ہمارے گروپ کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی تو ہیں ہی، الگ الگ شعبوں سے جڑے ہوئے لوگوں کا بھی تعاون حاصل ہے۔ انجینئر، ڈاکٹر، صحافی اور افسر بھی اس گروپ میں شامل ہیں۔ سبھی دل سے کام کر رہے ہیں اور یہ کام پوری طرح سے غیر سیاسی ہے۔ کوئی بھی اس مدد سے نفع حاصل نہیں کرنا چاہتا۔ یہ پوری طرح سے انسان کی خدمت ہے۔"


اتراکھنڈ، ہماچل پردیش اور پنجاب جیسی ریاستوں کے بارڈر والے ضلع سہارنپور میں انتظامیہ کھانے کے انتظام کو لے کر سب سے زیادہ مطمئن ہے۔ تقریباً ایک لاکھ فیملی والے اس شہر میں کچھ لوگوں نے قسم کھائی ہے کہ وہ کسی کو بھوکا نہیں سونے دیں گے۔ مقامی انتظامیہ نے بھی ان لوگوں کے ساتھ زبردست تعاون کیا ہے۔ اس لاک ڈاؤن کے دوران اگر کسی شہر میں لوگوں کو کھانے کا سب سے کم مسئلہ ہوا ہے تو وہ یقینی طور پر سہارنپور ہے۔ یہاں لوگوں نے اپنی ذمہ داری کو یقینی طور پر سنجیدگی سے لیا ہے۔

32 سال کے آصف حواری بھی لوگوں کی خدمت میں مصروف ہیں۔ وہ لنک روڈ پر رہتے ہیں۔ ان کے یہاں 200 لوگوں کا کھانا بنتا ہے اور اب تک وہ 1200 راشن کِٹ تقسیم کر چکے ہیں۔ ان کی خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے اس کے لیے کسی سے چندہ نہیں لیا اور وہ یہ سب خود کے پیسے سے کر رہے ہیں۔ آصف کہتے ہیں کہ "کورونا ایک خطرناک بیماری ہے۔ یہ امیر اور غریب نہیں دیکھتی۔ ویسے بھی آج کل ماحول بہت عجیب ہو گیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پیسہ بچا کر کہیں نہیں لے جایا جا سکتا، جو بھی کمایا ہے وہ سب خرچ کر رہا ہوں۔ بہت تسلی مل رہی ہے۔"


آصف کا کہنا ہے کہ وہ جب لوگوں کو راشن دینے جاتے ہیں تو کئی بار ضرورت مندوں کے گھر کے باہر ہی راشن کِٹ رکھ آتے ہیں۔ گھر دیکھ کر ہی ہمیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کی ضرورت کیا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ مرد کچھ جگہ راشن نہیں لیتے۔ تب خواتین راشن اٹھا لیتی ہیں اور ایسے وقت میں ان کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ آصف کہتے ہیں کہ "حضرت علی نے کہا ہے کہ جب کسی کی مدد کرو تو اس کی آنکھوں میں مت دیکھو۔ ایک بار میرے سے غلطی ہو گئی۔ اب میں نظر نہیں اٹھاتا ہوں۔" قابل ذکر بات یہ ہے کہ آصف نے اب دودھ تقسیم کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔ آصف کہتے ہیں کہ اس عمل کے ذریعہ وہ اپنے جانے انجانے گناہوں کو معاف کرا رہے ہیں۔

سہارنپور میں لوگوں کو لاک ڈاؤن کے دوران کی سب سے بڑی فکر یعنی راشن وغیرہ کا انتظام تو کچھ نیک دل لوگوں نے دور کر دی ہے، لیکن کچھ اضلاع میں حالات انتہائی افسوسناک ہیں۔ حالانکہ سہارنپور کے کچھ لوگ اس بات سے مایوس ضرور ہیں کہ ایسے مشکل وقت میں مقامی رکن پارلیمنٹ غائب ہیں۔ اس پارلیمانی حلقہ سے بی ایس پی کے فضل الرحمن رکن پارلیمنٹ ہیں۔ فضل الرحمن کے پڑوسی شہاب الدین کہتے ہیں کہ "ابھی الیکشن میں ساڑھے چار سال ہیں، وہ آ جائیں گے۔" اس جملے میں چھپے طنز کو سمجھا جا سکتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ سہارنپور میں تمام سیاسی شخصیات کہیں پوشیدہ ہیں اور ان سے مقامی لوگ کافی ناراض ہیں۔ بس ایک سیاسی ہستی اس سے استثنیٰ ہے، اور وہ ہیں عمران مسعود۔


عمران مسعود تنہا سیاسی شخصیت ہیں جو اس وقت بھی سڑک پر نظر آ رہے ہیں۔ ان کی نگرانی میں اب تک ہزاروں خاندانوں کو کھانا پہنچ چکا ہے۔ عمران مسعود قومی آواز کے نمائندہ سے کہتے ہیں کہ "ہم نے قسم کھائی ہے کہ کسی کو بھی بھوکا نہیں سونے دیں گے۔ کم از کم سہارنپور میں کھانے کی کوئی دقت نہیں ہوگی۔ جو بھی گروپ اس میں کام کر رہے ہیں وہ سب خدا کی رضا کے لیے کام کر رہے ہیں۔ کسی کو کوئی لالچ نہیں ہے۔ ان میں سے نصف سے زیادہ تو کسی پارٹی میں بھی نہیں ہے۔ سب انسانیت کے لیے کام کر رہے ہیں۔"

سہارنپور میں ہو رہے امدادی کاموں سے چھپیان کے حافظ اسلام کافی خوش نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ "حق ادا کر دیا ہے۔ واقعی! صحیح وقت پر لوگوں کی مدد کے لیے لوگ آگے آئے ہیں۔ کم از کم سہارنپور میں کھانے کا مسئلہ لوگوں نے پیدا نہیں ہونے دیا۔ اگر لوگوں کے درمیان آپس میں ایک دوسرے کی مدد کو لے کر ایسا ہی جذبہ رہا تو کورونا کسی کا کچھ نہیں کر پائے گا اور ہم طویل ترین لڑائیاں بھی لڑ لیں گے۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 05 Apr 2020, 10:00 AM