انیس الرحمن کی موت کی سی بی آئی جانچ کا مطالبہ ، گاؤں میں غم کا ماحول

انیس الرحمن کا قتل یہ بتاتا ہے کہ حکمراں جماعت کسی بھی ابھرتی ہوئی آواز کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے اور اس میں ریاستی پولس یا پھر سی آئی ڈی سے انصاف کی امید نہیں ہے۔

علامتی تصویر سوشل میڈیا
علامتی تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

عالیہ یونیورسٹی کے سابق طالب علم انیس الرحمن کی موت کے بعد ہوڑہ کے خسبیریا گرام پنچایت کے ساردا دکھن گاؤں میں غم کا ماحول ہے۔انیس کے گھر کے باہر گاؤں کی عورتوں کا ہجوم ہے انہیں اب تک یقین نہیں آرہا ہے کہ وہ لڑکا جو ان کی امیدوں کا مرکز تھا اور ہرمصیبت اورکام میں ساتھ کھڑا رہتا تھا اس کا اس قدر بہیمانہ انداز میں قتل کردیا جائے گا ۔

انیس الرحمن کی ماں کا تین سال قبل ہی انتقال ہوگیا تھا، دو بھائی میں سےایک بھائی سعودی عرب کے کسی شہر میں رہتا ہے جب کہ ایک بڑا بھائی جو کلکتہ میں ہے وہ اےسی کا کام کرتا ہےاور حادثہ کے وقت وہ اپنے بچوں کے ساتھ کمرے میں سورہا تھا۔ اس کے علاوہ دوسرے کمرے میں بھانجی سورہی تھی اور والد نے ہی دروازہ کھولا تھا۔ گاؤں والوں نے بتایا کہ چوں کہ اس دن گاؤں میں جلسہ تھا۔ گاؤں کے سارے مرد جلسے میں شریک تھے۔ انیس الرحمن بھی وہاں موجود تھا۔ صرف وہ 15منٹ قبل ہی جلسے سے گھر آیا تھا - سرکاری مدرسہ کے مدرس کلیم اللہ جو چند منٹ قبل تک جلسے میں انیس الرحمن کے ساتھ موجود تھا, نے بتایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انیس کا پیچھا جلسے سے ہی کیاجارہا تھا۔ اسی وجہ سے جب دروازہ کھلوانے پر انیس کے والد نے کہا کہ وہ ابھی گھر میں نہیں ہے تو ان لوگوں نے کہا کہ وہ ابھی گھر آیا ہے اور اس کو تلاش کرتے ہوئے اوپر والی منزل پر چلے گئے۔


کلیم اللہ نے بتایا کہ اسکول کے زمانے سے ہی انیس الرحمن ان کا ساتھی رہا ہے۔وہ اپنے گاؤں کی تصویر بدلنا چاہتا تھا۔کلکتہ میں عالیہ یونیورسٹی میں پانچ سال تک ایم بی اے کیا او ر اس کے بعد کلیانی یونیورسٹی میں اس وقت ماس کمیونیکشن کا کورس کررہا تھا۔کلیم اللہ نے بتایا کہ گاؤں کی سیاست اور تنازعات سے اس کا کوئی واسطہ نہیں تھا ۔وہ کلکتہ میں اور ہوڑہ کے الوبیڑیا میں این آر سی اور شہری ترمیمی ایکٹ مخالف تحریکوں میں حصہ لیتا تھا۔اس کی وجہ سے اس کے خلاف ایک دو مقدمات بھی درج ہوئے تھے ۔عالیہ یونیورسٹی کو بچانے والی تحریک میں بھی وہ پیش پیش تھا۔

انیس کی پھوپھی حلیمہ نے بتایا کہ انیس لڑکپن سے ہی پڑھا ئی لکھائی میں تیز تھا۔وہ اپنے گاؤں اور خاندان کے بچوں کو بھی اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتا تھا۔گاؤں کے ہر بچے کی مدد کرنے کو وہ تیار رہتا تھا۔کسی کا داخلہ کرنا ہو یا پھر کسی کو کتاب دلانی ہو وہ پیش پیش رہتا تھا۔گاؤں کے ہی ایک باشندے علی خان نے بتایا کہ انیس الرحمن ہمارے گاؤں کا ابھرتا ہوا بچہ تھا ۔اس سے ہمیں امید تھی کہ وہ گاؤں اور علاقے کی ترقی کےلئے کام کرے گا۔پولس نے ہماری امیدوں کو مار دیا۔


خیال رہے کہ آمتا پولس اسٹیشن سے 10کلومیٹر اندر میں واقع ساردکھن پارہ گائوں میں چار سو سے پانچ سو گھر واقع ہے ۔ 80فیصد مسلم آبادی ہے۔گائوں کی تنگ و تاریک گلیاں گائوں کی پسماندگی کی کہانی بیان کرتی ہے۔گاؤں کے زیادہ تر باشندے کھیتی پر منحصر ہے ۔نوجوان لڑکے اب ملک کے دیگر شہروں میں کام کرنے لگے ہیں تو گاؤں میں کچھ پختہ مکانات بننے لگے ہیں ۔

6مہینے قبل انیس الرحمن نے اپنے گاؤں میں خون عطیہ کا کیمپ منعقد کیا تھا مگر حکمراں جماعت کے لیڈرو ں نے اسے روکوادیا ۔انیس الرحمن نے پولس میں شکایت بھی درج کرائی تھی ۔گاؤں کے لوگوں نے بتایاکہ انیس الرحمن چوں کہ ہر مظلوم پریوار کی مدد کرتا تھا اور سیاسی لیڈروں کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتا تھا اس لئے وہ نشانے پر تھا۔اس نے محض چند مہینے قبل عباس صدیقی کی سیاسی جماعت انڈین سیکولرفرنٹ میں شمولیت اختیار کی تھی ۔


مسلم مجلس مشاورت کا ایک وفد جس میں ریاستی جنرل سیکریٹری عبد العزیز اور قمرالدین ملک شامل تھے نے آج ساردا دکھن گاؤں جاکر سالم خان سے ملاقات کی اور کہا کہ اس کے بیٹے کو انصاف دلانے کی لڑائی میں مسلم مجلس مشاورت کھڑی رہے گی ۔عبدالعزیز نے کہا کہ انیس الرحمن کا قتل یہ بتاتا ہے کہ حکمراں جماعت کسی بھی ابھرتی ہوئی آواز کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ جس طریقے سے انیس الرحمن کا قتل کیا گیا ہے ایسے میں ریاستی پولس یا پھر سی آئی ڈی سے انصاف کی امید نہیں ہے۔ پولس سیاسی لیڈروں کے دباؤں میں کام کرتی ہے۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ سی بی آئی جانچ ہو۔ مسلم مجلس مشاورت وزیرا علیٰ ممتا بنرجی سے مطالبہ کرتی ہے کہ انیس الرحمن کے قتل کی جانچ سی بی آئی سے کرائی جائے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔