بلندشہر فساد: بی جے پی رہنما انسپکٹر سبودھ کا تبادلہ کرانا چاہتے تھے

بلند شہر بی جے پی کے جنرل سیکریٹری سنجے شروتیا نے اس خط کی تصدیق کی ہے ۔ شہر کے سابق کونسلر اور مقامی بلاک صدر پرمیندر یادو سمیت بی جے پی کے چھ رہنماؤں نے اس خط پر دستخط کئے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

بلند شہرفساد میں مارے گئے انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ سے بی جے پی کے مقامی رہنما خوش نہیں تھے اور یہ رہنماگزشتہ تین ماہ سے ان کے تبادلہ کا مطالبہ کر رہے تھے ۔ انگریزی روزنامہ ٹائمس آف انڈیا کے مطابق بی جے پی کے مقامی رہنماؤں نے بلند شہر کے رکن پارلیمنٹ بھولا سنگھ کو اس تعلق سے ایک تحریری شکایت بھی کی تھی ۔ سبودھ کمار کے خلاف انہوں نے تحریر کیا تھا کہ ان کی وجہ سے ہندو مذہبی پروگراموں کے انعقاد میں مستقل پریشانی ہو رہی ہے اور ان کے اس رویہ کی وجہ سے انہیں ہٹا دینا چاہیے۔

بلند شہر بی جے پی کے جنرل سیکریٹری سنجے شروتیا نے اس خط کی تصدیق کی ہے ۔ شہر کے سابق کونسلر اور مقامی بلاک صدر پرمیندر یادو سمیت بی جے پی کے چھ رہنماؤں نے اس خط پر دستخط کئے ہیں۔

اس خط میں بی جے پی ارکان نے تحریر کیا ہے کہ ’’پولس افسر کو ہندو مذہبی پروگراموں میں اڑنگا ڈالنے کی عادت ہے اور اس وجہ سے ہندو سماج میں ان کے خلاف غصہ بڑھ رہا ہے ‘‘۔ اس خط میں مزید تحریر ہے کہ ایس ایچ او گائے چوری اور گئو کشی کی شکایتوں کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیتے ، اس لئے انہیں اور دوسرے دیگر مقامی پولس افسران کو فورا ً یہاں سے کہیں اور بھیج دیا جائے اور ان کے خلاف محکمہ جاتی جانچ کرانے کے احکام جاری کئے جائیں۔

اخبار نے شروتیا کے حوالہ سے تحریر کیا ہے کہ انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ اور بی جے پی رہنماؤں کے درمیان اختلافات کے کئی معاملہ سامنے آئے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں ’’مذہبی پروگراموں میں روڑا اٹکانے کی ان کی عادت ہو چکی تھی اور اس وجہ سے ہندو سماج ان سے کافی ناراض تھا ۔ منوج تیاگی کہتے ہیں کہ انہوں نے سبودھ کمار سنگھ کے تبادلہ کا مطالبہ کیا تھا۔

واضح رہے بلندشہر کے سیانہ علاقہ میں 3 دسمبر کو گئو کشی کی افواہ کے بعد تشدد بھڑک اٹھا تھا اور اس تشدد میں ایک نوجوان سمیت انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ کی موت ہو گئی تھی ۔ موت کے بعد سبودھ کمار سنگھ کی بہن نے الزام لگایا تھا کہ ان کے بھائی کا قتل ایک سازش کا نتیجہ ہے کیونکہ ان کے بھائی نے دادری کے اخلاق قتل کی ابتدائی جانچ کی تھی جس پر ایک طبقہ ان سے ناراض تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔