ادب انسان کو انسان بناتاہے: پروفیسر ارتضیٰ کریم

ادب پڑھنے اور ادب سے لگاؤ کو آج کے انسان کی ایک اہم ضرورت ہے اورموجودہ دور میں ادب سے اخلاقی تربیت کیسے حاصل کرسکتے ہیں۔

فائل علامتی تصویر آئی اے این ایس
فائل علامتی تصویر آئی اے این ایس
user

یو این آئی

اردوزبان وادب کے معروف ادیب پروفیسر ارتضیٰ کریم نےمادری زبان کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ادب کے مطالعہ زور دیا۔انہوں نے کہا کہ مادری زبان کو ہمیں اپنے سینے سے لگائے رکھنے کی ضرورت ہے۔ مادری زبان کی کتابیں انسان کو زیادہ متاثر کرتی ہیں۔ ہندی اور انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ طلباء کو اردو زبان و ادب کے مطالعے پر بھی توجہ دینی چاہیے کیونکہ ادب انسان کو انسان بناتا ہے۔ ادب مختلف کیفیات اور محسوسات کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ادب ہمیں روح کا سکون فراہم کرتا ہے۔

پروفیسر ارتضی کریم ہندی اردوساہتیہ ایوارڈکمیٹی کی سہہ روزہ گولڈن جبلی تقریبات کے آج تیسرے اورآخری دن ناول ’گھروندا‘پر منعقد مذاکرے میں اظہار خیال فرما رہے تھے۔


ناول’گھروندا‘مصنف اطہرنبی کی کتاب پر منعقدمذاکرے میں گدن پورپاؤس میں اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ مذکورہ ناول طویل سفرپرمحیط،زندگی کے ہزارہاپُرپیچ مراحل،غم ناک اندھیروں اورگریزپامسرتوں کے باہم سنجوگ کا ایک آئینہ خانہ بن گیا ہے، جس میں اودھ کی دلنواز تہذیبی میراث واقداراورتکثیری ثقافت کالازوال عکس اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ رقصاں ہے،جسے اطہرنبی کے فنکارانہ تخیّل،ذکاوتِ حِس اورآفاقی بصیرت کا مظہر اورخردافروزی کی ایک درخشندہ مثال سے تعبیرکیاجاسکتا ہے۔

اس موقع پر مصنف ناول ’گھروندا‘اطہرنبی نے اردوزبان کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج انٹرنیٹ پر ہرزبان میں ہر طرح کا تعلیمی مواد باافراط موجود ہے۔ہم چاہیں تو اپنے بچوں کو اپنی نگرانی میں جدیدترین وسائل کا استعمال کرتے ہوئے پڑھائی کراسکتے ہیں جس سے وہ اپنے کلاسوں کے نصاب پر عبور حاصل کرسکتے ہیں۔ہمیں خود اپنے مطلوبہ مقاصد کے حصول کیلئے کوشش کرنا ہے۔


مہمان خصوصی پروفیسرقاضی عبیدالرحمن ہاشمی نے کہا کہ جاوید،خالد اورپروین کے گردبُنی گئی ناول گھروندا کی کہانی ہے،ناول جس کی ابتداء میں ہمارے عہد کے پیچیدہ پلاٹ اوربیانیہ کے برخلاف فرسٹ پرسن میں بڑی حدتک مانوس کہانی کوقصہ گوئی کے انداز اورسادہ پیرائے میں ترتیب دیاگیا ہے اوریہ وہ خصوصیت ہے جسے ناول کے اختتام تک برقراررکھاگیا ہے۔تینوں کردارجوبچپن کے ساتھی ہیں،بدلے ہوئے زمانے میں جس طرح اخلاقی آدرشوں کی بالادتی کے لئے ہرسدِ راہ سے گزرجاتے ہیں،وہ ایک ایسی مثال(ideal)ہے جس سے خودناول نگار کے تصورانسان وآدمیت پربھی روشنی پڑتی ہے۔

صحافی ضیاء اللہ صدیقی نے کہاکہ موجودہ مشینی دور میں ہم ادب کیوں پڑھیں؟ کیا اس ترقی یافتہ دور میں ادب کا مطالعہ کسی صورت مفید ثابت ہوسکتا ہے؟ یہ اور اس طرح کے کئی دوسرے اہم نکات کے حوالے سے اپنے تاثرات پیش کیے۔انہوں نے ادب پڑھنے اور ادب سے لگاؤ کو آج کے انسان کی ایک اہم ضرورت قرار دیا۔انہوں نے موجودہ دور میں ادب سے اخلاقی تربیت کیسے حاصل کرسکتے ہیں سے متعلق بھی گفتگو کی۔


معروف شاعرحسن کاظمی نے خوبصورت اورخالص ادبی نظامت کرتے ہوئے کہاکہ مادری زبان کسی بھی انسان کی شناخت ہوتی ہے۔فرد مادری زبان میں سوچتا ہے،منصوبہ بندی کرتا ہے اورمختلف باتوں کوسمجھتا ہے یعنی یہ زبان فرد کی ترقی کا اہم ذریعہ ہے۔ اس زبان کی معدومیت کے ذمہ دار ہم خود بن رہے ہیں۔ہم نے کمرشیلائزیشن کے اس زمانے میں پروپیگنڈہ کا شکار ہوکر خود اپنی جڑوں کو ختم کرنے کا کام شروع کردیا ہے۔

ہندی اردوساہتیہ ایوارڈکمیٹی کی سہہ روزہ گولڈن جبلی تقریبات کے آج تیسرے اورآخری دن ناول ’گھروندا‘پرمذاکرے کے انعقاد کے ساتھ تقریب کاتجزیہ بھی کیاگیا۔اس موقع پرخاص طور سے تقریب کے منتظمین کااطہرنبی نے دل کی گہرائیوں سے شکریہ اداکیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔