بہار میں ندیوں کے کنارے شراب اسمگلروں کا قبضہ، ’سیف زون‘ بنا لیا
ریاست میں 2016 سے شراب پر پابندی عائد ہے لیکن کئی ایسے علاقے ہیں جہاں شراب کی بھٹیاں چل رہی ہیں اور اسمگلر اس کی سپلائی کرنے میں مصروف ہیں
پٹنہ: بہار کی گنگا، گنڈک اور سون ندیوں کے کنارے اب تک تربوز، خربوز، کھیرے، ککڑی و ہری سبزیوں کی کاشت کے لیے جانے جاتے تھے لیکن اب یہ رجحان تبدیل ہو گیا ہے۔ اب ان بڑی ندیوں کے کناروں پر نہ صرف شراب کی بھٹیاں چل رہی ہیں بلکہ شراب کے گودام تک بنائے جا رہے ہیں۔ بہار کی بڑی ندیوں کے چوڑے کنارے اب شراب اسمگلروں کے لیے محفوظ علاقہ بن گیے ہیں اور یہاں کی ریت ان کے لیے ’محفوظ زون‘ میں تبدیل گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : پاکستان میں پھر وہی سانپ سیڑھی کا کھیل... ظفر آغا
بتایا جاتا ہے کہ جب سڑکوں سے لے کر پگڈنڈیوں تک شراب کے اسمگلروں کو پکڑنے کے لیے پولیس نے پہرا بٹھا دیا ہے تو اسمگلروں نے ندیوں کے کناروں کو ہی اسمگلنگ کے لیے اپنا اڈہ بنا لیا ہے۔ خبروں کے مطابق اب ماہی گیر بھی اسمگلنگ کے کام کرنے لگے ہیں۔ حال کے واقعات میں کشتیوں اور ندیوں کے کناروں سے شراب کی برآمدگی اور اسمگلروں کا نہیں پکڑا جانا اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ شراب کی اسمگلنگ کے معاملے میں دیارا ایسا ہی علاقہ ہے جہاں پولیس بھی جلدی جانا نہیں چاہتی۔ یہاں پر شراب کی بھٹیاں جلتی رہتی ہیں اور مہوا سے شراب بنتی رہتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ شراب بنانے کے بعد اسے ڈرم میں بھر کر ریت میں گڑھا کھود کر اس میں چھپا دیا جاتا ہے۔ کیمور، بکسر، روہتاس، گوپال گنج جیسے کئی سرحدی اضلاع ہیں جہاں سمگلر اب ندیوں کے کناروں کو اپنا اڈہ بنا رہے ہیں۔
بہار کا بکسر ضلع اتر پردیش کی سرحد سے متصل ہے۔ دریائے گنگا کے دوسری جانب یوپی کا بلیا ضلع ہے اور اس جانب بکسر ہے۔ ایسے میں شراب پینے والے اکثر بلیا چلے جاتے ہیں۔ پولیس نے کئی شراب اسمگلروں کو پکڑا ہے جو بلیا سے شراب خرید کر بکسر لاتے تھے۔ گوپال گنج ضلع میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے جہاں سڑک پر چیک پوسٹ بنا دیئے گیے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اسمگلر رات میں یوپی سے کشتی کے ذریعے آسانی سے شراب لے کر بہار پہنچ جاتے ہیں اور پھر اسے دریائے گنڈک کے کنارے ریت میں چھپا دیتے ہیں۔ اس کے بعد آرڈر ملنے کے بعد اسے آسانی سے نکال کر آس پاس کے علاقوں میں سپلائی کر دیتے ہیں۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ پولیس کو اس کا علم نہیں ہے۔ پولیس کو بھی اس کا پتہ چل جاتا ہے، چھاپے بھی مارتے ہیں اور شراب برآمد بھی ہو جاتی ہے لیکن اسمگلر پکڑے نہیں جاتے۔ کہا جاتا ہے کہ اسمگلر ندیوں میں تیرنے کے ماہر ہوتے ہیں اور پولیس کو آتے دیکھ کر پانی میں چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ پولیس ریکارڈ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ شراب کے اسمگلروں کی نظریں اب ندیوں کے راستوں پر ہوتی ہیں۔ چار دن پہلے گوپال گنج ضلع کے 2 مختلف تھانوں کی حد میں 2 کشتیوں سے تقریباً 800 لیٹر شراب برآمد ہوئی تھی، لیکن اسمگلر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
اس سے قبل 27 دسمبر کو سارن ضلع پولیس نے گنڈک ندی میں ایک کشتی سے 6642 لیٹر غیر ملکی شراب برآمد کی تھی۔ گوپال گنج میں جادوپور تھانے کی حد میں دسمبر میں ہی منگل پورہ پل کے قریب 225 لیٹر شراب برآمد کرنے کے ساتھ ساتھ پولیس نے کشتی کو بھی ضبط کیا تھا۔ گوپال گنج کے پولیس سپرنٹنڈنٹ سورن پربھات کا بھی کہنا ہے کہ ’’پولیس کے لیے ندی کے راستے سے شراب کے اسمگلروں کو پکڑنا ایک چیلنج ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’چاہے وہ سڑک کا راستہ ہو یا ندی کا، پولیس شراب کے اسمگلروں کے خلاف مسلسل کارروائی میں جٹی ہوئی ہے اور مسلسل چھاپے مارتی رہتی ہے ۔‘‘ واضح رہے کہ بہار میں 2016 سے شراب بندی قانون نافذ ہے، جس کے تحت ریاست میں شراب کی فروخت اور استعمال پر روک ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔