ان ریاستوں میں اب بھی نافذ ہے دفعہ 370 جیسا قانون...

امت شاہ نے پیر کو راجیہ سبھا میں جموں و کشمیر کے خصوصی اختیارات سے جڑے دفعہ 370 کی سہولیات کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔ لیکن اب بھی 11 ایسی ریاستیں ہیں جہاں دفعہ 370 جیسا ہی قانون نافذ ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے پیر کے روز راجیہ سبھا میں جموں و کشمیر کے خصوصی اختیارات سے متعلق دفعہ 370 کی سہولیات کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اسی کے ساتھ جموں و کشمیر کی زمین خریدنے کا راستہ ملک کے دوسرے حصوں میں رہنے والے لوگوں کے لیے کھل گیا ہے۔ یہی نہیں، دوسری ریاستوں کے لوگ اب جموں و کشمیر میں سرکاری ملازمت کے حقدار بھی ہوں گے۔ حالانکہ اب بھی 11 ایسی ریاستیں ہیں جہاں دفعہ 370 کی طرح ہی دفعہ 371 نافذ ہے اور اس دفعہ کے تحت ان ریاستوں کو خصوصی اختیارات حاصل ہیں۔ آئیے جانتے ہیں کہ کون سی وہ 11 ریاستیں ہیں جنھیں دفعہ 371 کے تحت خصوصی اختیارات حاصل ہیں۔

مہاراشٹر/گجرات – دفعہ 371

مہاراشٹر اور گجرات میں دفعہ 371 نافذ ہے۔ اس دفعہ کے تحت وہاں کے گورنر کو کچھ خصوصی اختیارات حاصل ہیں۔ مہاراشٹر کے گورنر ودربھ اور مراٹھ واڑا میں الگ سے ترقیاتی بورڈ بنا سکتے ہیں۔ اسی طرح گجرات کے گورنر بھی سوراشٹر اور کَچھ میں الگ ترقیاتی بورڈ قائم کر سکتے ہیں۔ ٹیکنیکل ایجوکیشن، ووکیشنل ٹریننگ اور روزگار کے مناسب پروگراموں کے لیے بھی گورنر خاص انتظام کر سکتے ہیں۔


کرناٹک – دفعہ 371 جے

حیدر آباد اور کرناٹک علاقے میں الگ ترقیاتی بورڈ بنانے کی سہولت ہے۔ ان کی سالانہ رپورٹ اسمبلی میں پیش کی جاتی ہے۔ بتائے گئے علاقے میں ترقیاتی کاموں کے لیے الگ سے فنڈ ملتا ہے لیکن برابر حصوں میں۔ سرکاری ملازمتوں میں اس علاقے کے لوگوں کو برابر حصہ داری ملتی ہے۔ اس کے تحت ریاستی حکومت کے تعلیمی اداروں اور ملازمتوں میں حیدر آباد اور کرناٹک میں پیدا ہوئے لوگوں کو طے حد کے تحت ریزرویشن بھی ملتا ہے۔

آندھرا پردیش اور تلنگانہ – 371 ڈی

ان دونوں ریاستوں کے لیے صدر جمہوریہ کے پاس کسی خاص طبقہ کو کسی خاص ملازمت میں نوکری دیئے جانے سے متعلق حکم دینے کا اختیار ہے۔ اسی طرح تعلیمی اداروں میں بھی ریاست کے لوگوں کو برابر حصہ داری یا ریزرویشن ملتا ہے۔ صدر جمہوریہ سول سروسز سے جڑے عہدوں پر تقرری سے متعلق معاملوں کو نمٹانے کے لیے ہائی کورٹ سے الگ ٹریبونل بنا سکتے ہیں۔


منی پور – 371 سی

صدر جمہوریہ چاہیں تو ریاست کے گورنر کو خصوصی ذمہ داری دے کر منتخب نمائندوں کی کمیٹی بنوا سکتے ہیں۔ یہ کمیٹی ریاست کے ترقیاتی کاموں کی نگرانی کرے گی۔ گورنر سالانہ اس کی رپورٹ صدر جمہوریہ کو سونپ سکتے ہیں۔

میزورم – 371 جی

زمین کے مالکانہ حقوق، منتقلی، میزو طبقہ کے رسوم و رواج، شہری انتظامیہ، مجرمانہ انصاف سے متعلق قانون پر پارلیمنٹ کا قانون نافذ تبھی ہوگا جب اسمبلی اس پر فیصلہ لے۔


ناگالینڈ – 371 اے

زمین کے مالکانہ حقوق اور منتقلی، ناگا طبقہ کی سماجی-مذہبی روایتوں، وسائل، شہری انتظامیہ، مجرمانہ انصاف سے متعلق قوانین میں پارلیمنٹ کا قانون نافذ نہیں ہوتا۔ مرکز اس پر تبھی فیصلہ لے سکتا ہے جب اسمبلی قرار داد پاس کرے۔

اروناچل پردیش – 371 ایچ

دفعہ 371 ایچ کے تحت ریاست کے گورنر کو قانون اور سیکورٹی کو لے کر خصوصی اختیارات ملتے ہیں۔ گورنر وزراء کے کونسل سے بحث کر کے اپنے فیصلے کو نافذ کرا سکتے ہیں۔ ان کے فیصلے پر کوئی سوال نہیں اٹھا سکتا۔ ان کا فیصلہ ہی آخری فیصلہ مانا جاتا ہے۔


آسام – 371 بی

صدر جمہوریہ ریاست کے قبائلی علاقوں سے چن کر آئے اسمبلی کے نمائندوں کی ایک کمیٹی بنا سکتے ہیں۔ یہ کمیٹی ریاست کے ترقیاتی کاموں پر غور کر کے صدر جمہوریہ کو رپورٹ سونپیں گے۔

سکم – 371 ایف

ہندوستانی یونین میں سب سے آخر میں سال 1975 میں شامل ہوئے سکم کو بھی آئین میں کئی حقوق ہیں۔ آرٹیکل 371 ایف نے ریاستی حکومت کو پوری ریاست کی زمین کا حق دیا ہے، چاہے وہ زمین ہندوستان میں انضمام سے پہلے کسی کی نجی زمین ہی کیوں نہ رہی ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی سہولت سے سکم کی اسمبلی چار سال کی رکھی گئی ہے جب کہ اس کی خلاف ورزی صاف دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہاں ہر 5 سال میں ہی انتخاب ہوتے ہیں۔


اتنا ہی نہیں، آرٹیکل 371 ایف میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’کسی بھی تنازعہ یا کسی دوسرے معاملے میں جو سکم سے جڑے کسی سمجھوتے، انگیجمنٹ، ٹریٹی یا ایسے کسی انسٹرومنٹ کے سبب پیدا ہوا ہو، اس میں نہ ہی سپریم کورٹ اور نہ کسی اور کورٹ کا حلقہ اختیار ہوگا۔‘‘ حالانکہ ضرورت پڑنے پر صدر جمہوریہ کے مداخلت کی اجازت ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔