تبلیغی جماعت کے تعلق سے پھیلایا جا رہا جھوٹ، پولس جانچ میں میڈیا پر اٹھے سوال
میرٹھ میں جماعت کے رکن نے دکاندار پر نہیں تھوکا، سہارنپور میں بھی جماعت کے رکن نے گوشت نہیں ملنے پر کھانا نہیں پھینکا، اور دہرہ دون میں جماعت کے لوگوں نے 25-25 روٹیاں نہیں کھائیں، یہ سب جھوٹ ہے۔
گزشتہ ایک ہفتہ میں تبلیغی جماعت کو نشانہ بناتے ہوئے کئی طرح کی منفی خبریں منظر عام پر آئی ہیں۔ انھیں میڈیا کے ایک طبقہ میں خوب پھیلایا گیا۔ لیکن دھیرے دھیرے ان خبروں کی حقیقت سب کے سامنے آنے لگی ہے اور میڈیا پر سوال بھی اٹھنے لگے ہیں۔ میڈیا کا ایک گھناؤنا چہرہ ابھر کر سب کے سامنے آیا ہے۔ ممبئی میں پولس اہلکار پر تھوکنے والی سچائی سب کے سامنے آنے کے بعد نفرت والی ہندوتوا بریگیڈ پہلے ہی منھ کی کھا چکی تھی، کہ اب سہارنپور، میرٹھ اور دہرہ دون کے واقعات کی حقیقت سب کے سامنے آ گئی ہے۔ اتنا ہی نہیں، غازی آباد اور کانپور میں تبلیغی جماعت کے لوگوں پر لگائے گئے گھناؤنے الزامات کی کہانی میں بھی کئی پیچیدگی ہے۔
اتوار کو مذہبی پیشواؤں کے ساتھ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی ویڈیو کانفرنسنگ کے دوران سہارنپور سے مولانا محمود مدنی نے میڈیا کے ذریعہ پھیلائی جا رہی جھوٹی خبروں پر فکرمندی ظاہر کی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ میڈیا نے ان دنوں بے حد غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کی ہے جس سے سماج میں زہر پھیل رہا ہے۔ حالانکہ اس پر وزیر اعلیٰ یوگی کی طرف سے کوئی حوصلہ بخش جواب نہیں ملا۔
بہر حال، سلسلہ وار طور سے سامنے آئے واقعات اور خبروں کی ہوئی جانچ بہت کچھ صاف کر دیتی ہے۔ آئیے میرٹھ، سہارنپور اور دہرہ دون کی خبر سے ایک ایک کر کے پردہ اٹھاتے ہیں۔
میرٹھ میں دکاندار پر تھوکنے اور کاٹنے کا معاملہ جھوٹ نکلا...
معاملہ میرٹھ کے کنکرکھیڑا علاقہ کے لکھوایا گاؤن کا تھا۔ ہفتہ کی شب یہاں تبلیغی جماعت سے جڑے ایک مقامی شخص نعیم الدین کا اپنے ایک پڑوسی دکاندار ارون سے بیڑی کے بنڈل کا 10 روپے کی جگہ 12 روپے لینے کو لے کر تنازعہ ہو گیا تھا۔ اس کے بعد ارون کے گروپ نے نعیم الدین کی پٹائی کر دی جس کی شکایت کرنے کے لیے نعیم الدین تھانہ چلا گیا۔ اس کے بعد ارون بھی تھانے پہنچا اور اس نے بتایا کہ نعیم الدین نے اس پر تھوکا اور ہاتھ میں کاٹ لیا تاکہ اسے انفیکشن ہو جائے۔ ارون نے یہ بھی کہا کہ نعیم الدین انسانی بم ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ ہندوؤں کو انفیکشن دینے کی دھمکی دے رہا تھا۔
لیکن پولس کی ایماندارانہ جانچ میں یہ سامنے آیا کہ ارون کو ایسا کرنے کے لیے ایک مقامی لیڈر ترون گوجر نے بھڑکایا تھا۔ اسی نے سکے سے ارون کے ہاتھوں پر چوٹ کے نشان بنائے تھے۔ اس کے بعد پولس نے سازش تیار کرنے اور سماج میں زہر گھولنے کی سازش کے الزام میں ارون اور ترون سمیت ان کے ایک دیگر ساتھی کو گرفتار کر لیا۔
سہارنپور: گوشت نہ ملنے پر کھانا پھینکنے کی خبر بھی ثابت ہوئی جھوٹ، پولس نے کی تردید
سہارنپور ضلع کے رام پور منیہارن تھانہ حلقہ میں بھی تبلیغی جماعت کے کچھ لوگوں کو کوارنٹائن کیا گیا ہے۔ ہفتہ کے روز میڈیا کے ایک خاص طبقہ نے ان کے بارے میں ایک خبر بنا کر شائع کی جس میں کہا گیا کہ ان لوگوں نے کھانے میں گوشت نہ ملنے کی وجہ سے کھانا پھینک دیا اور کھلے میں رفع حاجت کر دیا۔ کئی بڑے میڈیا گروپوں نے بھی بغیر جانچ کے اس خبر کو ترجیحی بنیاد پر دکھا دیا۔
معاملہ کی جانچ کرنے والے رام پور کے کوتوال چھوٹے سنگھ نے بتایا کہ یہ خبر پوری طرح سے جھوٹ تھی۔ انھوں نے کہا کہ وہ اس خبر کی تردید کرتے ہیں۔ ہوا بس یہ تھا کہ جماعت سے جڑے ایک شخص نے کھانا کھانے کے بعد ڈسپوزل پلیٹ ڈَسٹ بِن میں نہ ڈال کر کھڑکی کے باہر ڈال دیا تھا۔ اسی پر بات بڑھ گئی۔ بہر حال، ضلع کے سینئر پولس سپرنٹنڈنٹ کی جانب سے بھی اس خبر کو جھوٹا بتایا گیا۔
دہرہ دون: جماعت کے ہر رکن کے 25-25 روٹی کھانے کی خبر بھی فرضی نکلی
اتراکھنڈ کی راجدھانی دہرہ دون کے 'دون میڈیکل کالج' میں تبلیغی جماعت کے کچھ لوگوں کو کوارنٹائن کیا گیا ہے۔ ابھی ان کی ٹیسٹ رپورٹ آنی باقی ہے۔ کئی مقامی اخباروں نے خبر شائع کی تھی کہ یہاں داخل جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک ایک فرد نے 25-25 روٹی کھائی ہے۔ لیکن اسپتال کے پرنسپل آشوتوش سیانا نے اس بات کی تردید کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ مقامی اخباروں نے ان سے بات کیے بغیر ہی اپنی مرضی سے سب کچھ لکھ دیا۔ انھوں نے بتایا کہ "ہمارے یہاں ایک مریض کو چار روٹی دی جاتی ہے۔ مانگنے پر مزید دو روٹی دی جاتی ہے۔ اس سے زیادہ کسی کی خوراک نہیں ہوتی ہے۔ ایک فرد کے 25 روٹی کھانے کی بات مضحکہ خیز ہے۔ کوئی 10 روٹی بھی نہیں کھا سکتا ہے۔ ہم سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا۔ یہ خبر جھوٹ ہے۔"
ان واقعات کے انکشاف سے ظاہر ہے کہ جان بوجھ کر میڈیا کا ایک طبقہ اس طرح کی فرضی خبریں دکھا رہا ہے اور اس کے بعد دہلی میں موجود بڑے نیوز گروپ بھی بغیر تحقیق کیے ایسی خبروں کو آگے پھیلا رہے ہیں۔ اب جب کہ پولس کی ہی جانچ میں یہ تمام خبریں جھوٹی پائی گئی ہیں تو سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ان خبروں کو قصداً ایک خاص زاویہ دے کر ترجیحی بنیاد پر شائع کرنے والے اور دکھانے والے اخبارات و ٹی وی چینل کیا اپنی غلطی مانتے ہوئے معافی مانگیں گے؟ کیا ان جھوٹی خبروں کو سازش کے تحت سماج میں زہر پھیلانے کے ارادے سے شائع کرنے کے لیے ایسے اخباروں و ٹی وی چینلوں پر کوئی کارروائی ہوگی؟
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 06 Apr 2020, 10:11 PM