سنگھاسن خالی کرو کہ ’جَنتا‘ آتی ہے... مرنال پانڈے

اکیسویں صدی کا نوجوان آزاد فضا میں پیدا ہوا ہے۔ ناانصافی اسے غصہ دلاتی ہے کیونکہ گئو رکشا، رام مندر، کانگریس نسل پرستی سے اسے کوئی سروکار نہیں۔ اس کا مطلب تو اپنی ملازمت، زراعت اور دکانداری سے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

مرنال پانڈے

ہندوستان میں ’مذہب‘ لفظ کی عمر کے بارے میں ماہرین کہتے ہیں کہ ’رگ وید‘ سے لے کر آج تک تقریباً 4 ہزار سال ہو چکے ہیں۔ اس دوران اس لفظ کا مطلب زندگی جینے کے انداز سے سیاست چلانے تک، اتنے دائروں میں پھیل گیا ہے کہ ان سب کو ساتھ دیکھنے پر دماغ چکرا جاتا ہے۔ پانچ ریاستوں کے تازہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے (امید کے مطابق) ہندو مذہب کا، اس مذہب سے جڑی چیزوں (یعنی گائے، مندر اور مذہبی نشانیوں) کا اکثریتی ووٹ بینک کو متاثر کرنے کے لیے کھل کر استعمال کیا۔ پھر بھی پانچوں ریاستوں میں پارٹی کو شکست حاصل ہوئی۔

اس کا مکمل سہرا پارٹی کے ان لیڈروں کو جاتا ہے جنھوں نے ہندوستان کے گاوؤں اور ہندو مذہب کی محدود و ’پونگاپنتھی‘ سمجھ کی تشہیر کی۔ مذہب کو لے کر ان سے کہیں صاف ستھرا انسانی نظریہ ہزار برس پہلے ہی والمیکی اور تلسی جیسے شاعروں اور ہمارے وقت میں گاندھی نے عوام کے ذہن میں ڈال دیا تھا۔ ’پَرہِت سرِس دھرم نہی بھائی، پر پیڑا سم نہی ادھمائی‘، ’ویشنو جن تو تینے کہیے، جے پیر پرائی جانے رے‘۔ یعنی پرائے دکھ کو اپنا سمجھ کر وہ جو کوئی بھی ہو، اس دوسرے کی مدد کرنا ہی مذہب ہے، اور دوسرے کو تکلیف پہنچانا مذہب نہیں۔

گاندھی جی اس تعلق سے کہہ گئے تھے کہ اصل سوراج گاؤں ہی کی طرف سے آنا ہے۔ ہندوستان کا جسم آج بھی زراعت ہے اور دل اسی انسانی، دوسروں کی مدد کرنے والے مذہب کی راہ پر چلتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ نہ تو شہری ترقی، میک ان انڈیا کا گجرات ماڈل، نہ ہی گائے، مندر یا مورتی پوجا کے نام پر کرائے گئے بڑے سرکاری تقاریب اور بھگوا پارٹیوں کے غنڈوں کے ذریعہ جگہ جگہ مچائی گئی مار کاٹ سے پریشان ہندوستان نے پانچ ریاستوں سے این ڈی اے کا صفایا کر دیا۔

آئندہ لوک سبھا انتخابات کا ڈریس ریہرسل مانے جا رہے ان انتخابات نے بی جے پی کے ذریعہ زبردست مذاق کا شکار بنائی جا رہی کانگریس کو ایک نئی طاقت عطا کر دی ہے۔ لیکن کانگریس نہ بھولے کہ اس جنگ میں کانٹے کی ٹکر ہوئی اور پھر کہیں جا کر فتح ملی۔ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ عوام مندر-مسجد کی تقسیم کرنے والی سیاست سے اکتا چکی ہے اور اسے موقع دے رہی ہے کہ وہ ڈھلمل رویہ چھوڑ کر نئی صدی کی نئی نسل کے خوابوں کو پنکھ دے جو 60 فیصد ووٹ کی مالک ہے۔ جو پارٹی اس میں ناکام رہی اس کا مالک بھی وہی بھگوان ہے جس نے ابھی شاہ اور مودی کی طاقتور بی جے پی تک کو دھکا دے کر اقتدار سے باہر کر دیا ہے۔

اکیسویں صدی کا نوجوان آزاد فضا میں پیدا ہوا ہے۔ اپنے والدین کی طرح وہ سر جھکائے ٹرین کی چھت پر سفر نہیں کرنا چاہتا۔ نہ ہی وہ مذہب کی افیم کا عادی ہے اور نہ ہی تقسیم، ایودھیا، رتھ یاترا، ایمرجنسی سے اسے کوئی مطلب ہے۔ یہ سب تاریخ بن چکے ہیں جس میں گھسنے کا ان کے پاس نہ تو وقت ہے اور نہ ہی خواہش۔ وہ سوشل میڈیا کا باضابطہ صارف ہے اور اپنے ووٹ کے بدلے اپنے لیے ایک بہتر، آزاد اور سہولتوں والے مستقبل کی گارنٹی کا خواہاں ہے۔

ملک کے لیے خون چڑھانے یا مذہبیت سے ابدی زندگی کو بہتر بنانے کی دلیل اس کے لیے لایعنی ہے جب کہ مندر کے نام پر اس کی آنکھ کے سامنے اس کا اسکوٹر یا بس شورش پسندوں کے ہاتھوں جلائے جا رہے ہیں اور بے قصور اقلیتوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ ناانصافی اسے غصہ دلاتی ہے کیونکہ گئو رکشا، مذہبی ریاضیات، رام مندر، کانگریسی نسل پرستی سے اوپر اٹھ کر خود اس کی ملازمت، زراعت یا دکانداری اور طرز زندگی کی بابت اسے حکومت میں کوئی گہری انسانی حساسیت نہیں نظر آتی۔ اس کے برعکس کرفیو، چمڑا سمیت مویشی پروری پر لگی بے بنیاد پابندیوں، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے بعد ملازمتوں میں کمی اور زراعت کی بدحالی کے برے اثرات وہ سیدھے برداشت کر رہا ہے۔ امیروں کا مزید امیر ہوتے جانا، ان کی فراٹے دار طرز زندگی اور اقتصادی جرائم کی حکمرانی سے نزدیکیوں کی خبریں اسے لگاتار دے کر رہی سہی کسر سوشل میڈیا پوری کر دیتا ہے۔ اسی لیے اس نے بی جے پی کو دوڑا دیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 13 Dec 2018, 4:03 PM