جسٹس مدن لوکر، سنتوش ہیگڑے، سولی سوراب جی... سب نے شہریت ترمیمی بل کو بتایا آئین کے خلاف
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مدن لوکر، جسٹس سنتوش ہیگڑے سے لے کر سابق اٹارنی جنرل سولی سوراب جی تک سب کا ماننا ہے کہ شہریت ترمیمی بل پوری طرح سے آئین کے خلاف ہے۔
ملک کے مشہور و معروف ماہرین قانون نے لوک سبھا کے ذریعہ پاس شہریت ترمیمی بل 2019 کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت میں یہ بل کہیں بھی نہیں ٹھہر سکے گا کیونکہ یہ آئین کے حقیقی جذبہ کے خلاف ہے۔
واضح رہے کہ مودی حکومت نے متازعہ شہریت ترمیمی بل کو 9 دسمبر کی دیر شب لوک سبھا میں پاس کرا لیا۔ اپوزیشن نے اس بل کو غیر آئینی قرار دیا ہے، لیکن مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کا دعویٰ ہے کہ اس بل سے آئین کی کسی بھی دفعہ کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ انھوں نے زور دیا کہ آئین کی دفعہ 14 حکومت کو کسی مناسب اور مدلل اسباب کی بنیاد پر کوئی قانون بنانے سے نہیں روکتی ہے۔
امت شاہ نے کہا کہ ’’1971 میں ایک فیصلہ ہوا تھا کہ بنگلہ دیش سے آنے والے لوگوں کو ہندوستان کی شہریت دے دی جائے گی۔ لیکن اس وقت پاکستان سے آئے لوگوں کو شہریت کیوں نہیں دی گئی۔ اس وقت بھی دفعہ 14 موجود تھا، پھر صرف بنگلہ دیش ہی کیوں؟‘‘
قابل غور ہے کہ 1973 کے کیشوانند بھارتی بنام کیرالہ حکومت کے کیس میں عدالت نے کہا تھا کہ پارلیمنٹ آئین کے کسی بھی حصے میں تبدیلی کر سکتی ہے بشرطیکہ اس سے آئین کے بنیادی ڈھانچے اور اقدار سے چھیڑ چھاڑ نہ ہو۔ ملک کے مشہور و معروف ماہرین قانون کا ماننا ہے کہ موجودہ برسراقتدار طبقہ کی آئین کو لے کر سمجھ میں خامی ہے۔ ان کے مطابق آئین کی دفعہ 14 واضح کرتی ہے کہ مذہب، ذات، رنگ، جنس یا مقام پیدائش کی بنیاد پر ملک ان میں تفریق نہیں کر سکتا۔
کیشوانند بھارتی بنام کیرالہ حکومت کے 1973 کے کیس سے جڑے رہے فالی ایس نریمن کے ساتھ سولی سوراب جی کا کہنا ہے کہ ’’یہ بل آئینی امتحان پاس نہیں کر پائے گا۔ یہ تقسیم کاری اور آئین کے بنیادی اصول یعنی برابری کے حق کے خلاف ہے۔‘‘
دوسری طرف سپریم کورٹ کے سابق جسٹس مدن بی لوکر کا ماننا ہے کہ ’’شہریت ترمیمی بل آئین کی دفعہ 14 کی سیدھی سیدھی خلاف ورزی کرتی ہے۔ اس دفعہ کے دائرے میں سبھی آتے ہیں۔ میں نہیں مانتا کہ اس کے پیچھے ریجنیبل کلاسیفکیشن کی دلیل مناسب ہے۔‘‘ ان کے علاوہ عدالتی اصلاحات کے لیے آواز اٹھانے والے اور نیشنل جیوڈیشیل اکیڈمی کے سابق سربراہ موہن گوپال مانتے ہیں کہ ’’شہریت ترمیمی بل غیر آئینی ہے اور یہ آئین کے بنیادی ڈھانچوں کی خلاف ورزی ہے۔ اس بل سے ہر مذہب کے لوگوں کو ملا برابری کا حق ختم ہوتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بل آئین کے سیکولرزم کے اصول کی بھی خلاف ورزی ہے۔ مجھے امید ہے کہ سپریم کورٹ اسی بنیاد پر اس بل کو خارج کر دے گا۔‘‘
موہن گوپال کا کہنا ہے کہ حکومت نے جو فکر پڑوسی ممالک میں اقلیتوں پر ہو رہے مذہبی استحصال کو لے کر ظاہر کیا ہے، ویسی ہی فکر حکومت کو ہندوستان میں اقلیتوں کو لے کر ظاہر کرنی چاہیے جو اکثریتی طبقہ کے چیلنجز برداشت کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی ان اکثریتی طبقات، ایس سی و ایس ٹی اور انتہائی پسماندہ طبقہ کو لے کر فکر ظاہر کرنی چاہیے جو ہندو اعلیٰ ذاتوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہیں۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل سنجے ہیگڑے کا بھی ایسا ہی ماننا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ اس بل کے پیچھے ریجنیبل کلاسیفکیشن کی دلیل ہے، لیکن اس کے ضروری مقاصد کو سامنے لائے بغیر یہ دلیل بے معنی ہے۔ حکومت نے پڑوسی ممالک کے اقلیتوں کو مذہبی بنیاد پر استحصال زدہ مان کر شہریت دینے کا انتظام کیا ہے، تو اس بنیاد پر یہ بل سپریم کورٹ میں کھڑا نہیں رہ پائے گا کیونکہ انہی ممالک مین شیعہ اور احمدیہ مسلم بھی ہیں جو مذہبی استحصال کا شکار ہیں۔ یہ مذہبی بنیاد پر تفریق ہے جس کی آئین اجازت نہیں دیتا ہے۔‘‘
ہیگڑے نے کہا کہ ’’اگر اس بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج دیا جاتا ہے تو عدالت اسے پوری طرح کارج کر دے گا۔ سپریم کورٹ اسی بنیاد پر اسے خارج کر دے گا جس بنیاد پر اس نے تین طلاق کے بل کو کارج کیا تھا۔‘‘ انھوں نے کہا کہ آئین کو اندر ہی اندر کھوکھلا کیا جا رہا ہے۔ ایسا ہی چلتا رہا تو یہ صرف نام کا رہ جائے گا اور ہم ایک طرح سے ہندو راشٹر یا اکثریت پسند قوم بن جائیں گے۔ ایسا ہوتا ہے تو ہم قطعی وہ سیکولر ملک نہیں رہیں گے جو اپنے سبھی شہریوں کو یکساں سمجھتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 11 Dec 2019, 10:10 AM