جشن بھرے ماحول میں کانگریسی رہنما بنے تاریخ کے گواہ
صرف اے آئی سی سی ہی نہیں بلکہ پورے اکبر روڈ پر زبردست جشن کا ماحول تھا۔ وہاں پہنچتے ہی ایک بڑے جشن کا ماحول نظر آیا۔ اکبر روڈ کے ایک حصہ کو بیریکیڈ لگاکر بند کردیا گیا تھا جہاں صرف کاریں نظرآرہی تھیں
جیسے ہی 24 اکبر روڈ کے قریب پہنچا تو وہاں پر بڑی تعداد میں ٹی وی چینلوں کی او بی وینس کھڑی ہوئی تھیں اس سے اس بات کا احساس ضرورہو گیا کہ یہاں جو بھی ہو رہا ہے وہ تاریخی نوعیت کا ہے۔
اے آئی سی سی کے صدر دروازے پر زبر دست بھیڑ تھی، جیسے ہی کانگریس کا کوئی بڑ ا رہنما آتا تو ٹی وی چینل کے لوگ اور کانگریسی کارکنان اس پر ٹوٹ پڑ تے ۔ سبھی ایک ہی طرح کے سوال کر رہے تھے اور کانگریسی رہنما اپنے اپنے انداز میں جواب دے رہے تھے۔ ہر کانگریسی رہنما کا چہرا خوشی سے کھلا ہوا تھا اور ان کو بھی کہیں نہ کہیں اندر سے اس بات کا احساس خوش کر رہا تھا کہ وہ ایک تاریخی موقع کے گواہ بننے جا رہے ہیں۔
صحافیوں کے داخلے کے لئے اے آئی سی سی ہیڈ کوارٹر میں ایک الگ گیٹ بنایا گیا تھا۔ راہل کی موجودگی کی وجہ سے اے آئی سی سی کی چھت سے لے کر پورے احاطے میں ایس پی جی کے لوگ اپنی پوزیشن لئے ہوئے تھے اور اس بات کو یقینی بنا رہے تھے کہ صرف چنندہ لوگ ہی اندر جا سکیں اور وہاں غیر ضروری بھیڑ جمع نہ ہو سکے۔
میڈیا انچارج رندیپ سنگھ سرجے والا اس بات کو یقینی بنا رہے تھے کہ میڈیا کے لوگوں کو کچھ نہ کچھ خبر ملتی رہے اس لئے وہ پانڈیچری کے وزیر اعلی سے لے کر دہلی یونیورسٹی اسٹوڈینٹس یونین کی سابق عہدےدار امریتا دھون تک کچھ نہ کچھ اس موقع پر بولیں ۔ جیسے ہی کوئی رہنما واپس جانے کے لئے صدر دروازے کی جانب آتا تو فورا میڈیا والے اپنے اپنے تعلقات کی مناسبت سے گھیرنے لگتے اور سوال پوچھنے لگتے۔
شیلا دکشت نکلیں تو دہلی کے تمام صحافیوں کو ایسا لگا کہ اپنی رہنما آ گئیں، ہریانہ کے سابق وزیر اعلی بھوپندر سنگھ ہڈا نکلے تو ہریانہ کے صحافی ایک دم متحرک ہو گئے، کیرالہ کانگریس کے صدر جب دروازے کی طرف بڑھے تو تمام جنوب کے صحافی ملیالم زبان میں سوال کرنے لگے، منی شنکر سے تو سب بات کرنا چاہتے ہی ہیں کیونکہ سب کو لگتا ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ خبر کے لئے مصالحہ دے ہی دیں گے۔
پنجاب کانگریس کے صدر کی تقریر کو لے کر کچھ صحافی اس لئے پریشان ہو گئے کیونکہ جو اردو کے الفاظ وہ استعمال کر رہے تھے اس سے بہت سے صحافی واقف نہیں تھے۔ انہوں نے جب غربت اور عزم جیسے الفاظ استعما ل کئے تو نوجوان صحافی ’عزم ‘ کے معنی جاننے کے لئے ایک دوسرے سے پوچھنے لگے۔
ایک طرف صحافیوں سے خطاب کرنے کے لئے ایک مخصوص جگہ سے تمام رہنما ایک کے بعد ایک خطاب کر رہے تھے اور سرجے والا ایک کے بعد ایک رہنما کو خطاب کرنے کے لئے ہاتھ پکڑ کر لا رہے تھے وہیں باہر جانے والے رہنما گیٹ پر ٹی وی والوں کو کچھ نہ کچھ مصالحہ دے رہے تھے۔
جشن جیسے ماحول میں تمام صحافیوں کا ایک ہی سوال تھا کہ راہل گاندھی کب میڈیا سے خطاب کریں گے اور اسی درمیان جیسے ہی راہل گاندھی باہر نکلے تو میڈیا پوری طرح متحرک ہو گئی لیکن ایک ہی منٹ میں یہ جوش اس وقت کافور ہو گیا جب راہل گاندھی میڈیا سے بغیر خطاب کئے ایس پی جی کے گھیرے میں باہر چلے گئے۔صحافیوں کے چہرے پر ناراضگی نظر آ ئی لیکن پھر سب دوسرے رہنماؤ ں سے ملنے اور بات کرنے میں مصروف ہو گئے۔
جتنے بھی لوگوں نے تقاریر کیں انہوں نے راہل گاندھی کی قیادت کی زبردست تعریف کی، مودی کی زبان کولے کر ان کی گھبراہٹ کو لے کر اظہار خیال کیا ، بزرگوں کے تجربہ اور جوانوں کے جوش کا ذکر کیا اور کہا کہ وہ خوش ہیں کہ وہ اس تاریخی موقع کے گواہ بن رہے ہیں ۔ کانگریس دفتر میں ایک نیا جوش نظر آ رہا تھا اس موقع پر صحافی حضرات شہزاد پونا والا کامزاق اڑاتے ہوئے نظر آئے۔
بہر حال پوراا ے آئی سی سی ایک چھوٹا ہندوستان نظر آ رہا تھا جہاں ہر جگہ کے لوگ اپنے اپنے لباس میں نظر آرہے تھے۔
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیکمشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔