زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے:پروفیسر ترون کمار سنگھ

ہم اپنے اسلاف کے ان کارناموں کو یاد کریں جنہوں نے اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب اور ساجھا وراثت کو فروغ دینے کے لیے اپنے قلم کا استعمال کیا۔

علماتی فائل تصویر آی اے این ایس
علماتی فائل تصویر آی اے این ایس
user

یو این آئی

”زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا مگر آج ہماری سیاست نے زبان کو بھی مذہب سے جوڑدیاہے۔ سیاست نے زبان ہی نہیں ہمارے رشتوں میں بھی جو دوری پیدا کر دی ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے ختم کیا جائے۔ادب کا کام محض محفلیں منعقد کرنا یا تفریح مہیا کرنا نہیں ہے۔ادب کا اصل کام سماج کو جوڑنا اور معاشرتی و خاندانی رشتوں کو مضبوط کرناہے۔یہی وہ طریقہ ہے جس سے ہم سیاسی چالوں کا جواب دے سکتے ہیں“ ان خیالات کا اظہار پروفیسر ترون کمار سنگھ صدر شعبہ ہندی اورڈین فیکلٹی آف ہیومنیٹیز پٹنہ یونیورسٹی نے ایک سیمینار کے صدارتی خطبے میں کیں جو شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی میں منعقد کیاگیاتھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہندی اردو کے بار ے میں گفتگو کرتے ہوئے ہمیں ان دونوں کی تاریخ پر نظر رکھنی ہوگی۔اگر ان دونوں کی تاریخ اور بنیاد ایک ہے تو دونوں میں زیادہ تفریق ممکن ہی نہیں ہے۔ہمارے ادیب معاشرے کے لئے روشنی کا ذخیر ہ ہیں وہ دونوں زبانوں سے سماج کو روشن کرتے ہیں۔آج کا موضوع اس لیے بھی اہم ہے کہ اس سے ہندو مسلم اتحاد کا راستہ ہموار ہوتاہے ۔شعبہ اردو کی جانب سے اس سیمینار کا انعقاد دوسروں کے لیے مشعل راہ ہے جس کی لیے میں انہیں مبارکباد دیتاہوں۔


اس سے قبل صدر شعبہ اردو ڈاکٹرشہاب ظفر اعظمی نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے موضوع کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ آزادی کا امرت مہوتسو مناتے ہوئے ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہم اپنے اسلاف کے ان کارناموں کو یاد کریں جنہوں نے اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دیااور بغیر کسی مذہبی تفریق کے ساجھا وراثت کے تحفظ وفروغ کے لیے اپنے قلم کا استعمال کیا۔ایسے شعرا وادبا ءکی تعداد ہزاروں میں ہے جنہوں نے زبان کو مذہب سے جوڑ کرنہیں دیکھا بلکہ اپنی پسند اوراپنی فکر کے مطابق زبان کا استعمال کیا۔ملک محمدجائسی ،غلام نبی رسلین،رحیم خانخاناں ،رس کھان بابا فرید اور امیر خسرو کے بغیر اگر ہندی ادب مکمل نہیں ہو سکتا تو دیاشنکر نسیم ،ہرگوپال تفتہ،چکبست ،فراق،جگن ناتھ ،شرشار،بیدی،کرشن چندر اور پریم چند جیسے ہزاروں ادیب اردو زبان وادب کی تاریخ کا ناگزیر حصہ ہیں۔آج کا یہ پروگرام ایسے ہی ادیبوں اور شاعروں کو یاد کرنے،ان کی وراثت کو نئی نسل تک منتقل کرنے اور ملک کی مشترکہ تہذیب کو فروغ دینے کے مقصد سے عمل میں لایا گیاہے۔

کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے پروفیسر شہزاد انجم نے فرمایا کہ ہم لوگ طلبہ کو نصاب میں ادب بلا تفریق مسلک ومذہب پڑھاتے ہیں ،کبھی یہ ذہن میں آتا ہی نہیں کون مسلم ہے اور کون غیر مسلم۔یہی جذبہ تعلیم کے بعد بھی ہمیشہ قائم رہنا چاہیے۔انہوں نے اردو زبان کے ارتقا میں غیر مسلم شعرا کی خدمات پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے متعدد شعرا کے منتخب اشعار سنائے اور ان کی ادبی و تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالی۔انہوں نے عہد حاضر کے غیر مسلم ادبا کا ذکر کرتے ہوئے ریختہ فاونڈیشن کے سنجیوا صراف اور محترمہ کامنا پرشاد کی کاوشوں کو بھی سلام کیا جو اردو کی محبت میں وہ کام کررہے ہیں جو خود اردو والے نہیں کرسکے۔مہمان اعزازی پروفیسر صفدرامام قادری نے کہا کہ اردو کی تاریخ ہندومسلم ثقافت کی امین رہی ہے۔کولونیل بھارت میں اردو فارسی ہندستان کی لنگوا فرینکا تھی۔مگر آج صورت حال ویسی نہیں رہی۔اس کے باوجود اردو اساتذہ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ زبانوں سے واقف نظرآتے ہیں۔دوسری زبانوں میں اردو کے واقف کیوں کم ہو گئے ہیں یہ سوال دعو ت فکر دیتاہے۔آج کے سیاسی وسماجی ماحول کا تقاضا ہے کہ وہ فضا تیا رکی جائے جس میں زبان مذہبی و قومی حدبندیوں سے آزاد ہو۔مہمان ذی وقار پروفیسر سید شاہ حسین احمد نے فرمایاکہ مذہب کی بنیاد پر تفریق کرکے ادبی ولسانی گفتگو کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔جیسے اردو ادب سب کا ہے ویسے ہی اردوزبان سب کی زبان ہے۔سب مل کرہی اس زبان اور اس سے وابستہ تہذیب کی بقا وتحفظ کافریضہ انجام دے سکتے ہیں۔


مہمان خصوصی پروفیسر اقبال حسن آزاد مدیر ’ثالث مونگیر‘ نے کہا کہ اردو اور ہندی میں دوری ہوئی ہے مگر بالکل ختم نہیں ہوئی ہے۔ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ یہ دور ی مزید نہ بڑھے بلکہ بتدریج ختم ہوجائے۔انہوں نے اپنے مادرعلمی میں آکر اپنی بے پناہ مسرت کا بھی اظہا رکیا اور صد رشعبہ کا شکریہ ادا کیا جن کی وجہ سے وہ چالیس سال کے بعد اپنے شعبے میں حاضر ہو سکے۔صدرشعبہ اردو ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کے شکریے کے بعدپروگرام کا اختتام ہوا جس میں پروفیسر اسرائیل رضا،پروفیسر جاوید حیات،ڈاکٹر نوشاد عاطر،ڈاکٹر سرورعالم ندوی،ڈاکٹر مسعود احمد کاظمی،ڈاکٹر صادق حسین،ڈاکٹر سہیل انور،ڈاکٹر جلال الدین،ڈاکٹر خورشید احمد،ڈاکٹر مسرت جہاں، شاہد اختر،ڈاکٹر افشاں بانو،ڈاکٹر نزہت پروین،ڈاکٹر منہاج الدین،نعمت شمع،محمد اسلم ،شعبے کے تمام ریسرچ اسکالرز ،طلبہ وطالبات کے علاوہ عظیم آباد کی متعدد علمی وادبی شخصیات نے شرکت کی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔