تجزیہ — لالو یادو: قومی سیاست کا ابھرتا سورج
آپ کو لالو پرساد یادو پسند ہوں یا ناپسند، آپ بہار ہی نہیں بلکہ ہندوستان کی سیاست کا تصور بغیر لالو پرساد یادو کے نہیں کر سکتے۔ ابھی نتیش کمار نے لالو کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہی تھا اورسیاسی مبصرین نے لالو کی سیاسی زندگی پر اناللہ بھی کہنا شروع کر دیا تھا کہ لالو نہ صرف اٹھ کھڑے ہوے بلکہ اس سیاسی جادوگر نے ہر کسی کو حیرت میں ڈال دیا۔
گزشتہ اتوار لالو پرساد یادو کی ’بی جے پی بھگاؤ، دیش بچاؤ‘ پٹنہ ریلی میں محض ہزارہا افراد نے شرکت ہی نہیں کی بلکہ پٹنہ ریلی سے لالو نے ملک گیر پیمانے پر ایک نئی سیاست کا آغاز کر دیا اور وہ سیاست ہے بی جے پی کے خلاف سیکولر اپوزیشن پارٹیوں کا اتحاد۔
پٹنہ میں لالو کی ریلی میں ملک کی 18سیاسی جماعتوں نے شرکت کی۔ اہم بی جے پی مخالف لیڈران میں لالو کے علاوہ بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی، اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اور سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو، جنتا دل (یو)کے باغی لیڈر شرد یادو اور کانگریس پارٹی کی جانب سے غلام نبی آزاد موجود تھے۔ ان کے علاوہ علاقائی پارٹیوں کے تقریباً ایک درجن لیڈر اور موجود تھے۔
مودی ہمنواؤں کا یہ کہنا ہے کہ اس ریلی میں مایاوتی نے شرکت نہیں کی اس لیے اپوزیشن اتحاد کو زیادہ اہمیت نہیں دی جا سکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مایاوتی پٹنہ ریلی میں شامل نہیں تھیں۔ اگر مایا اکھلیش کے ساتھ پلیٹ فارم پر موجود ہوتیں تو اتر پردیش میں سماجوادی، بہوجن سماج اور کانگریس پارٹی کے اتحاد کے واضح اشارے مل جاتے جو اپوزیشن اتحاد کے سلسلے میں ایک اہم قدم ہوتا۔
لیکن اس سلسلے میں یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ مایا کا دل پٹنہ ریلی میں تھا۔ وہ اس سلسلے میں اشارہ بھی دے چکی تھیں کہ وہ پٹنہ ریلی میں شرکت کر سکتی ہیں۔ لیکن پھر مودی حکومت کا ان پر دباؤ پڑا۔ مت بھولیے کہ اس وقت مودی حکومت حزب اختلاف کے لیڈران کے خلاف سی بی آئی کا استعمال کر رہی ہے۔ وہ مایا ہوں یا شرد پوار، تمام سینئر اپوزیشن لیڈر سی بی آئی کے دباؤ میں ہیں۔
خود لالو پرساد یادو پر کس قدر دباؤ ڈالا گیا لالو اور ان کے اہل خانہ پر سی بی آئی ریڈ کا مقصد ہی یہی تھا کہ لالو اپوزیشن اتحاد کی جانب کوئی اہم قدم اٹھانے سے بازر ہیں۔ لیکن لالو آخر لالو ٹھہرے۔ وہ ہندوستانی سیاست کے اس وقت واحد فرد ہیں جو بے خوف و خطر سیاست کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ سنگھ نظریات کی کھلی مخالفت کرنے والے لالو کو اس وجہ سے کئی بار جیل کی بھی ہوا کھانی پڑی۔ لیکن لالو نہ جھکے اور نہ دبے۔ یہی سبب ہے کہ ان کی پٹنہ ریلی اس قدر کامیاب رہی۔
پٹنہ ریلی کی کامیابی سے اپوزیشن اتحاد کا راستہ کھلا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مودی کی بلیک میلنگ حربوں کے سبب اپوزیشن اتحاد میں ابھی بھی اڑچنیں ہیں۔ لیکن پٹنہ ریلی نے نظریاتی سطح پر ایک بی جے پی مخالف پلیٹ فارم کی تعمیر کے لیے راستہ کھول دیا ہے۔
اس سلسلے میں یہ بھی بات غور طلب ہے کہ سنہ 1977 سے سنہ 2004 میں یو پی اے کے قیام تک اپوزیشن اتحاد نے ایک بھاری بھرکم شکل ہمیشہ الیکشن سے کچھ مدت قبل ہی لی ہے۔ سنہ 1977 میں اندرا مخالف طاقتوں نے جنتا پارٹی کی شکل الیکشن سے تقریباً دو ماہ قبل اختیار کی تھی۔ اسی طرح سنہ 2004 میں بی جے پی مخالف مورچہ یو پی اے کا قیام بھی پوری طرح سنہ 2004 کے لوک سبھا انتخابات کی تاریخوں کے اعلان کے بعد ہی ہوا تھا۔
اس لیے پٹنہ ریلی کو اپوزیشن اتحاد کی جانب پہلا اہم قدم کہا جا سکتا ہے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ لالو پرساد یادو نے اپوزیشن اتحاد کے دروازے کھول دیے ہیں۔ اسی وجہ سے اب وہ قومی سیاست میں آگے اہم کردار بھی ادا کریں گے۔ بلکہ پٹنہ ریلی کے بعد لالو اب قومی سیاست کا ابھرتا سورج بنتے جا رہے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔