بی جے پی حکومت میں خاتون پولس بھی محفوظ نہیں، ہوتا ہے جنسی استحصال

پولس کنٹرول روم میں جمع کی گئی شکایت کے مطابق افسران خاتون سپاہیوں کو دیر رات بنگلوں پر بلایا کرتے تھے اور اس کے لیے ان پر دباؤ بھی بنایا جاتا تھا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

ملک میں خواتین کے جنسی استحصال میں لگاتار ہو رہے اضافہ کی خبروں کی بیچ مدھیہ پردیش سے ایسی خبریں موصول ہو رہی ہیں جو محافظوں کو ہی کٹہرے میں کھڑی کر رہی ہیں۔ بی جے پی حکمراں اس ریاست میں اندور کے پولس کنٹرول روم کو جو شکایت موصول ہوئی ہے، وہ سماج میں پھیلی گندگی کی قلعی کھولتی ہے۔ اس شکایت میں کہا گیا ہے کہ پولس افسران خاتون پولس اہلکاروں کا استحصال کر رہے ہیں اور انھیں جبراً رات کو بنگلے پر طلب کرتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق شکایت میں پولس کنٹرول روم کے ڈی ایس پی پر الام عائد کیا گیا ہے کہ وہ ڈی آر پی لائن کی خاتون پولس اہلکار کے ساتھ شراب پارٹی کرتے ہیں۔ شکایت میں ریزرو انسپکٹر (آر آئی) پر بھی الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ ساتھ ہی کہا جا رہا ہے کہ ان کے گروہ میں لائن افسر ایس ایس شکلا، سپاہی دیوی لال، ونود، ڈیوٹی ٹیلر سمیت ہیڈ کانسٹیبل سینگر بھی شامل ہے۔ شکایت ملنے کے بعد شبہ کی بنیاد پر دو خاتون سپاہی اور ایک مرد سپاہی کا تبادلہ کر دیا گیا ہے اور معاملے کی جانچ بھی شروع ہو گئی ہے۔

کنٹرول روم میں پہنچی شکایت کے بعد افسروں میں ہلچل پیدا ہو گئی ہے۔ شکایت میں ڈی ایس پی کے قریبی پولس اہلکاروں پر بھی الزامات عائد کیے گئے ہیں کہ وہ خاتون سپاہیوں کو دیر رات بنگلوں میں جانے کے لیے دباؤ بناتے تھے۔ اس معاملے کی جانچ ڈی آئی جی ہری نارائن چاری مشر نے خاتون آئی پی ایس واہنی سنگھ کے سپرد کر دی ہے۔ انھوں نے اس سلسلے میں ڈی ایس پی، آر آئی، لائن افسر سمیت تقریباً 50 پولس اہلکاروں سے پوچھ تاچھ بھی کی ہے۔ ڈیوٹی ٹیلر پر عائد اس الزام کی بھی جانچ کی جا رہی ہے کہ وہ ڈی ایس پی کے اشارے پر کمیشن لے کر ڈیوٹی لگایا کرتا تھا۔

موصولہ خبروں کے مطابق شکایت میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پولس لائن کے سینئر افسر ٹرینی افسروں سے نزدیکی بناتے تھے۔ معاملہ چونکہ خواتین کے استحصال اور سینئر افسروں کے ذریعہ شراب پارٹی کیے جانے کا ہے اس لیے اسے سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ اے ایس پی واہنی سنگھ کے مطابق انھوں نے شکایت میں آٹھ نکات پر شک کے دائرے میں آنے والے افسروں اور تقریباً 50 پولس اہلکاروں سے پوچھ تاچھ کی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔