دہلی میں کھلے عام گھوم رہے ہیں لاکھوں مجرم

ہوشیار! گھر اور باہر چوکنا رہیں، کیونکہ دہلی میں لاکھوں مجرم کھلے عام گھوم رہے ہیں، پولس ان مجرموں کو پکڑنے میں ناکام ہوگئی ہے، اس لئے محتاط رہ کر خود ہی اپنے جان و مال کی حفاظت کرنے کی کوشش کریں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اندر وششٹھ

دہلی پولس ہر سال 60 سے 75 فیصد معاملات کو حل ہی نہیں کر پاتی، یعنی جرائم کے واقعات میں شامل لاکھوں مجرموں کا پتہ تک بھی پولس نہیں لگا پا رہی ہے۔ ان میں قتل، لوٹ، جھپٹ ماری، خواتین سے چھیڑخانی، ان کی عزت سے کھلواڑ اور چوری وغیرہ کے مجرمان شامل ہیں۔ یہ خطرناک صورت حال ہے کہ لاکھوں مجرمان کھلے عام گھوم رہے ہیں، ان کی وجہ سے عام لوگوں کے جان و مال پر ہمیشہ خطرہ بنا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہلی میں جرائم کے واقعات بڑھتے ہی جا رہے ہیں ، زیادہ تر مجرم جب پکڑے ہی نہیں جاتے تو بھلا جرائم کیسے کم ہوں گے۔

دہلی پولس کی سالانہ رپورٹ کے مطابق سال 2018 میں جرم کے 63 فیصد معاملات کو دہلی پولس سلجھا نہیں پائی۔ سال 2018 میں آئی پی سی کے تحت جرائم کے 236476 معاملات درج کیے گئے ، جن میں سے صرف 36.53 فیصد معاملات ہی پولس نے حل کئے ہیں۔

سال 2017 میں درج جرم کے 223077 معاملات میں سے 34.60 فیصد اور سال 2016 میں درج 199107 معاملات میں سے صرف 26.64 فیصد معاملات کو ہی پولس سلجھا پائی ہے۔ اس طرح تین سال میں جرم کے ساڑھے 6 لاکھ سے زیادہ معاملات درج کیے گئے ہیں۔ لیکن جرائم کے لاکھوں معاملات کو سلجھانے میں پولس ناکام رہی ہے۔

ان اعداد و شمار سے معلوم ہوتاہے کہ پولس کی جرائم حل کرنے اور مجرمان کو پکڑنے کی شرح بہت ہی کم ہے۔ اس سے پولس تفتیش کی قابلیت اور طریقہ کار پر سوال کھڑے ہو جاتے ہیں۔

واقف کاروں کی طرف سے خواتین کے تئیں جنسی تشدد

سال 2018 میں عصمت دری کے 2043 معاملات درج ہوئے۔ ان میں سے 97 فیصد سے زیادہ خواتین کے دوست، خاندانی دوست، رشتہ دار، پڑوسی یا دیگر واقف کار تھے۔ صرف 2.5 فیصد ملزمان ہی خواتین سے عصمت دری معاملے میں اجنبی تھے۔ ریپ کے تقریباً 95 فیصد معاملات میں ملزمان پکڑے گئے۔

دشمنی کی وجہ سے قتل کی واردات

سال 2018 میں قتل کی 477 واردات انجام دی گئیں۔ ان میں سے 38 فیصد قتل رنجش یا تنازعہ کی وجہ سے ہوئے۔ 21 فیصد قتل معمولی سی بات پر اچانک طیش میں آ جانے کی وجہ سے کیے گئے۔ 11 فیصد قتل جنون کی وجہ سے کیے گئے جبکہ 11 فیصد جرائم کے لئے قتل کیے گئے۔ پولس نے قتل کے 86.16 فیصد معاملات حل کرنے کا دعوی کیا ہے۔

پولس کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ قتل ہو یا عصمت دری، زیادہ تر معاملات میں ملزم واقف کار یا رشتہ دار تھے۔ مطلب یہ کہ ان سنگین جرائم کو حل کرنے کے لئے پولس کو زیادہ مشقت نہیں کرنی پڑی۔

سنگین جرائم

سال 2018 میں 5407 ، سال 2017 میں 6125 اور سال 2016 میں 7911 معاملات سنگین جرائم کے زمرے میں درج کیے گئے۔ قتل، عصمت دری، ڈکیتی، لوٹ، تاوان کے لئے اغوا، قتل کی کوشش اور فساد بھڑکانا سنگین جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ گزشتہ تین سالوں کے دوران کل 658660 معاملات میں سے 19443 معاملات سنگین جرائم سے وابستہ تھے۔ یعنی کل درج ہوئے جرائم کے معاملات کا محض 3 فیصد حصہ ہی سنگین جرائم کا تھا۔ پولس سنگین جرائم سے وابستہ 71 سے 91 فیصد معاملات کو حل کرنے میں کامیاب رہی۔ پولس سنگین جرائم کے معاملات کو حل کرنے پر خود اپنی ہی ستائش کرتی ہے لیکن درج ہوئے کل جرائم میں سے 60 سے 75 فیصد معاملات حل کرنے میں وہ ناکام رہتی ہے۔ ان جرائم میں شامل مجرمان پولس کی پہنچ سے دور رہے۔

دہلی میں چوری سب سے زیادہ

راجدھانی دہلی میں لوگ سب سے زیادہ چوروں سے عاجز ہیں۔ ہر وقت نقدی، سامان، گاڑی وغیرہ کی چوری ہو جانے کا خدشہ بنا رہتا ہے۔ جیب سے لے کر گھر، دکان، فیکٹری ، گودام، گاڑی سب کچھ چوروں کے نشانے پر ہے۔ سال 2018 میں آئی پی سی کے تحت درج جرائم کے کل 236476 معاملات میں سے 75 فیصد معاملات چوری کے ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ چوری کی واردات سب سے زیادہ رونما ہونے کے باوجود پولس ان جرائم کو حل کرنے کے تئیں سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ چوری کے 86 فیصد معاملات میں پولس چوروں کا پتہ نہیں لگا پائی ہے۔

گاڑیوں کی چوری میں اضافہ

سال 2018 میں گاڑی چوری کی واردات میں اضافہ ہوا ہے۔ کار، بائیک چوری کے 44158 معاملات درج ہوئے لیکن پولس محض 4619 گاڑیوں کو ہی برآمد کر پائی یعنی صرف 10.46 فیصد گاڑی برآمد ہی نہیں ہو پا ئیں

گزشتہ تین سال میں چوری کے 415000 معاملات میں سے محض 57100 معاملات ہی پولس نے حل کیے ہیں یعنی چوری کے 14 فیصد معاملات کو ہی پولس حل کر پائی۔

معصوم بچوں کو تلاش کرنا ہو یا لوٹ اور چین اسنیچنگ کے ایسے معاملات جن میں محنت کی ضرورت ہوتی ہے ان معاملات کو حل کرنے میں پولس نے دلچسپی نہیں دکھائی۔ گزشتہ تقریباً چار سال سے دہلی سے 8 ہزار بچے لاپتہ ہیں۔

پارلیمنٹ میں بھی گونجا جرائم کا معاملہ

سال 2017 میں راجیہ سبھا کے رکن کے ٹی ایس تلسی نے جرائم کے 75 فیصد سے زیادہ معاملات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کی توجہ اس طرف مرکوز کرائی تھی۔ تلسی نے کہا کہ حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ دہلی میں کریمنل جسٹس پوری طرح ختم ہو گیا ہے۔ سنگین، غیر سنگین اور غیر آئی پی سی معاملات سمیت تینوں زمروں میں سال 2016 میں درج کل 216920 معاملات میں سے 154647 معاملات حل نہیں ہو پائے ہیں۔ یہ تمام غیر حل معاملات سنگین جرائم میں شمار ہوتے ہیں اور سبھی میں تین سال سے زیادہ کی سزا کا التزام ہے۔

تلسی نے کہا کہ پولس اس وقت تک کوئی کارروائی نہیں کرتی جب تک قتل کی واردات نہیں ہو جاتی۔ دہلی میں پولس کے طریقہ کار کو لے مرکزی حکومت براہ راست طور پر ذمہ دار ہے۔ راجدھانی کا یہ حال ہے تو ملک میں کس طرح کے کریمینل جسٹس کی توقع کر سکتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔