منی پور: علیحدہ انتظامیہ کے مطالبے کے لیے دہلی میں کوکی-زو کا احتجاج

کوکی-زو احتجاج اس وقت ہوا جب مرکزی  حکومت نے 28 جولائی کو کوکی گروپوں کے نمائندوں اورمنی پور کی سالمیت کے لیے رابطہ کمیٹی کے اراکین کے ساتھ الگ الگ بات چیت کی۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ ویپن، قومی آواز</p></div>

تصویر بشکریہ ویپن، قومی آواز

user

ایشلن میتھیو

منی پور میں اپنے  علیحدہ انتظامیہ کے مطالبہ کے لئے کل کوکی زو کے لوگ نئی دہلی کے جنتر منتر میں جمع ہوئے  اور احتجاج کیا ۔یہ  احتجا ج اس وقت ہوا جب مرکزی حکومت نے کوکی گروپوں کے نمائندوں اور کوآرڈینیٹنگ کمیٹی فار منی پور انٹیگریٹی (COCOMI) کے اراکین کے ساتھ الگ الگ بات چیت کی۔

'علیحدہ انتظامیہ صرف حل ‘کے نعروں والی ٹی شرٹس پہنے، مظاہرین نے علیحدہ انتظامیہ کے مطالبے پر زور دیا کیونکہ ان میں سے کئی ارکان کا ماننا ہے کہ قبائل پہلے ہی الگ رہ رہے ہیں۔ ڈاکٹر میری گریس زو نے  جو کوکی زو ویمنس فورم دہلی کی کنوینر ہیں نے کہا کہ ’’ہماری ریاست میں جو کچھ ہوا ہے اس سے ہمیں بہت تکلیف ہوئی ہے اور ہم ٹوٹ  گئے ہیں۔ اگر ہمارے لوگوں کو اپنی جانوں کے لیے بے خوف رہنا ہے تو ہم الگ انتظامیہ چاہتے ہیں۔ علیحدگی پہلے ہی مکمل ہو چکی ہے۔ انہوں نے 300 گرجا گھروں کے علاوہ امپھال میں تمام کوکی گھروں کو جلا دیا ہے۔ 70,000 لوگ اس وقت بے گھر ہیں۔ امن اب کیسے ہوگا۔ ہمیں ریاستی حکومت پر بھروسہ نہیں ہے،‘‘


ایک مظاہرین نے اپنی شناخت نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ ’’جب ریاست میں تشدد جاری ہے اور حکومت نے جھگڑے پر قابو پانے کے لیے کچھ نہیں کیا تو حکومت امن کی بات کیسے کر سکتی ہے؟ سڑکیں بند ہیں، ہمارے گاؤں میں بجلی نہیں ہے۔ انہیں کوکیوں کی آواز کو دبانا بند کرنا چاہیے۔‘‘

واضح رہےمیتی برادری کو ایس ٹی زمرہ میں شامل کرنے کا مطالبہ منی پور میں ایک عرصے سے تنازعہ کا شکار ہے اور اسی کو موجودہ تشدد کے لئے ذمہ دار مانا جا رہا ہے۔کانگ پوپی ضلع میں جھگڑے کے دوران منی پور میں دو ماہ سے زیادہ وقت گزارنے کے بعد، لِنگ ڈونگل نے اس بات پر زور دیا کہ آئین کے آرٹیکل 239 کے تحت قانون سازی کے اختیارات کے ساتھ مرکز کے زیر انتظام علاقہ ہی واحد حل ہے۔ آرٹیکل 239 مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی انتظامیہ کو کنٹرول کرتا ہے۔


ڈونگل نے کہا کہ ’’خاندانوں کی عورتیں گھر میں بندوقیں  لئے ہوتی ہیں  اور مرد گاؤں کی حدود میں پہرہ دیتے ہیں۔ میں یہ بات فخر سے نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ یہ بتانے کے لیے کہہ رہا ہوں کہ یہ واحد راستہ تھا جس سے ہم زندہ رہ سکتے تھے۔ ہمیں اپنے گاؤں کی حفاظت کرنی تھی اور ہم پولیس پر بھروسہ نہیں کر سکتے تھے۔ لہذا، پولیس کے پاس ہمارے گاؤں کی حدود کے قریب بنکر تھے اور ہمارے آدمیوں کے پاس بھی تھے۔‘‘

صورت حال کی وضاحت کرتے ہوئے زو نے کہا کہ خواتین کی عصمت دری اور قتل کے ایسے بہت سے واقعات ہیں۔ "یہاں تک کہ وائرل ہونے والی دو کوکی خواتین کی ویڈیو میں بھی ایک تیسری عورت تھی۔ اس کے والد اور بھائی 20 سالہ نوجوان لڑکی کی حفاظت کرنے کی کوشش میں مر گئے۔ امپھال اور آس پاس کے اضلاع کے زیادہ تر لوگ ریلیف کیمپوں میں بھاگ گئے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کو اندازہ نہیں ہے کہ ان کی زندگی کیسے  گزرے گی۔‘‘


سیام فائپی، ایک وکیل جو منی پور ہائی کورٹ میں پریکٹس کرتے تھے، نے کہا کہ جن لوگوں کے ساتھ اس نے تعلیم حاصل کی ان میں سے کچھ جل کر ہلاک ہو گئے۔ تشدد پھوٹ پڑنے کے فوراً بعد 4 مئی کو اس کی ماں، بہن اور بہنوئی کو اغوا کر لیا گیا تھا۔ "سیکیورٹی فورسز کی مداخلت کے بعد، انہیں 4 مئی کو شام 7 بجے کے قریب واپس کر دیا گیا۔ انہیں منی پور رائفلز کے زیر اہتمام ریلیف کیمپ میں رہنا پڑا۔‘‘

فائپی نے کہا کہ اس نے 2022 میں بھارتیہ جنتا یووا مورچہ ، منی پور، کے خلاف نسل پرستانہ اور توہین آمیز ریمارکس کے لیے دو ایف آئی آر درج کرائی تھیں۔  فائپی نے بتایا کہ "انہوں نے پوسٹ کیا تھا کہ منی پور کے ایس ٹی ملک  دشمن اجنبی ہیں یا منی پور کے غیر قانونی تارکین وطن ہیں۔ وہ ہمیں غیر ملکی کہتے تھے۔ وہ کوکیوں اور میتیس کے درمیان دشمنی کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ 4 مئی میں شروع ہونے والا تشدد ب اچانک  نہیں تھا۔‘‘


کوکی-زو کا یہ احتجاج اس وقت ہوا ہے جب بدھ کے روز مرکزی  حکومت نے کوکی گروپوں کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت کی۔ بات چیت کا موجودہ دور ریاست میں جاری تشدد کو ختم کرنے کے طریقے تلاش کرنے پر مرکوز تھا۔ اس سے قبل یہ بات چیت کئی قبائل کے مطالبات کا سیاسی حل تلاش کرنے کے بارے میں تھی۔

خبروں کے مطابق، نسلی تشدد شروع ہونے سے پہلے، کوکی زومی باغی گروپوں کے ساتھ سیاسی تصفیہ کے لیے ایک حل پر کام کیا گیا تھا جہاں کوکی زومی  اور ناگا قبائل کے زیر تسلط پہاڑی اضلاع کو دو علاقائی کونسلوں میں تقسیم کیا جائے گا، ایک ناگا اور دوسرا کوکی زومی گروپوں کے لیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔