کولکاتا ٹرام کی یادیں: میری اپنی ایک الگ تال ہے، اپنی ہی ایک دُھن اور اپنا ہی ایک الگ انداز، میں ہوں کولکاتا کی ٹرام

مغربی بنگال حکومت نے کولکاتا میں ایسپلینیڈ سے میدان تک ایک حصے کو چھوڑ کر ٹرام خدمات کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لوگ 150 سال پرانی اس وراثت سے دور ہونے سے مایوس ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ سوشل میڈیا (ویکیپیڈیا)</p></div>

تصویر بشکریہ سوشل میڈیا (ویکیپیڈیا)

user

قومی آواز بیورو

میں ٹرام ہوں…کولکاتا کی ٹرام… کہیں سڑک کے بیچ، کہیں کنارے، سیدھی تو کہیں، آڑی – ترچھی اسٹیل کی متوازی لائن پر پہیوں کے سہارے میں کچھ کچھ ایسے دوڑتی نظر آتی، جیسے کسی مست مولا فقیر سے یاری کر لی ہو اور پھر ہم دونوں گلبہیاں کرتے اپنی ہی مستی میں کچھ گنگناتے چلے جا رہے ہوں۔ جیسے کہ یہ گنگنانا ہی ہمارے زندہ ہونے کی نشانی ہے۔ اس گنگنانے میں کوئی موسیقی نہیں، لیکن اگر ہم گنگنائیں نہیں تو ایسا لگے کہ جیسے موسیقی نے شہر سے توبہ کرلی ہو۔

میں دِکھتی ہوں تو ٹرین جیسی، لیکن ٹرین کی چُھک چُھک، دھک دھک، دُھک دُھک، دھڑک دھڑک، پوں… سے بالکل الگ میری اپنی ایک الگ تال ہے، اپنی ہی ایک دُھن اور اپنا ہی ایک الگ انداز۔ سڑک پر لگے بھیڑ بھاڑ کے درمیان ہر عام اور خاص کے اغل بغل سے میں بڑی ہی سمجھداری کے ساتھ گزر گئی۔ نہ رکی نہ تھکی نہ میں نے کسی کو ڈرایا اور نہ مجھ سے کوئی ڈرا۔ میں ایک جانب سے آتی دکھی پر سامنے سے جا رہے لوگ نہ تو ٹھٹھک کر پیچھے ہوئے اور نہ ہی انہوں نے گھبرا کر پٹریاں پار کی۔ کسی نے اپنی رفتار میں کوئی بدلاؤ نہیں کیا۔


آپ یہ پورا نظارہ دیکھیں گے تو آپ کو لگے گا کہ جیسے کوئی بجلی کے ایک سوئچ سے اس پورے نظارے کو چلا رہا ہے۔ جب سوئچ آن ہے تو نظارے چل پڑتے ہیں اور یہ تب رکیں گے، جب تک سوئچ آف نہ ہوگا۔ یا پھر ایسا کہیے کہ کولکاتا کے لوگوں نے 150 سال پرانی مجھ ٹرام کے ساتھ اپنی روح ایسے جوڑ لی تھی کہ وہ جیسے اس علم کے 'برہم گیانی' ہو گئے ہوں کہ ٹرام کتنی دیر میں کتنی دوری طے کر لے گی۔

پیدل چلتے ہوئے کتنی جلدی اس کے آگے سے نکلا جا سکتا ہے اور کتنی ہی تیزی سے چلتی ٹرام سے اترا جا سکتا ہے۔ میں یعنی ٹرام اور کلکتہ دونوں آپس میں ایسا گُھل مل چکے ہیں کہ کلکتہ سال 2001 میں ضرور کولکاتا ہو گیا لیکن میں ویسی کی ویسی رہی۔ لوہے کا ڈبّہ، کھٹارا، لکڑی کی بنچ والی گاڑی، مجھے چھوٹے بچے دیکھ کر چلاتے ٹرین ٹرین، وہ دیکھو ٹرین… پھر ان کی والدہ بتاتیں… ارے وہ ٹرین نہیں، ٹرام ہے۔ سچ بتاؤں اپنی الگ نام اور پہچان سن کر میں خوشی سے پھول جاتی، پھر دھیرے دھیرے کھو جاتی ہوں۔ اپنی ان یادوں میں جب میرا دور بھی سنہرا ہوا کرتا تھا۔


سال 1873 میں مجھے سیالدہ سے آرمینین گھاٹ تک گھوڑے کھینچتے ہوئے لے جاتے تھے۔ پھر 1880 میں دور آیا میٹر گیج ٹرام سروس کا اور میرے لیے کلکتہ ٹرام ویز کمپنی بنائی گئی۔ اب میں کلکتہ کی شان بننے کے سفر پر نکل پڑی۔ میں نے تقریباً 20 برسوں تک گنگا میّا کی لہروں کے سنگ قدم تال کی اور دیکھتے دیکھتے آیا 1902، جب گھوڑوں نے مجھ سے وداع لی اور اب میں بجلی سے چلنے والی گاڑی بن گئی۔ پھر تو میں فراٹہ بھرنے لگی، شیام بازار سے ہائی کورٹ، پھر نمتلہ اور سیالدہ سے ڈلہوزی اسکوائر، پھر دھرم تلہ سے کالی گھاٹ، کہاں سے چلی میں کہاں گئی میں، تھے مسافر سبھی ساتھی میرے۔

میں دوستوں کی ٹولیوں کے ساتھ ہڑدنگ میں شامل رہی۔ میں دفتر والے بابوؤ کی سروس میں حاضر رہی۔ کتنی دفعہ میری لکڑی کی سیٹوں پر بنے انقلاب کے منصوبے اور میں نے کان لگا کر سنے ہیں سیاسی سازش بھی۔ مجھے بہت اچھا لگا جب عاشقوں نے چاہا کبھی ختم نہ ہونے والا لامتناہی سفر اور میری دھیمی چال سے انہیں ملا ساتھ رہنے کا بھرپور وقت۔ تب کے بھاگتے کلکتہ سے میں بھی میں نے نوجوانوں کو دی ہے تھوڑی ٹھہراؤ والی زندگی، کہ وہ دو گھڑی آرام کر سوچ لے خود کے بارے میں بھی۔ شرٹ کی بانہہ سے پونچھ لیں اپنے ماتھے کا پسینہ اور کھڑکی کی آتی ہوا میں تلاش لیں تھوڑا سکون، لے لیں ذرا سی سانس اور پھر سے چل پڑیں اپنی منزل کی جانب۔


کہتے ہیں نہ کہ ہر شہر کی اپنی ایک شبیہ ہوتی ہے، اپنا ایک چہرہ ہوتا ہے۔ کولکاتا کی ہر تصویر اور فلم میں میں ہوں۔ سٹی آف جوائے کہلانے والے شہر کے کینوس پر میں اتنی ہی ضروری ہوں، جیسے بنارس میں گنگا گھاٹ، جیسے راجستھان میں ریت کے میدان، جیسے مہالیہ میں سجے دھجے دُرگا پنڈال اور پھر وسرجن میں لال سفید ساڑی پہن سندور کھیلا کرتیں خواتین۔

میں اس شہر کی ہنسی – خوشی کی وجہ ہوں۔ میں وہ ہوں جس میں وہ جوگی بھی چڑھ آیا، جو اکتارے پر گرو دیو رویندر کی لکھی سب سے مشہور باؤل 'ایکلا چلو رے' گنگنا رہا تھا۔ اس کے ساتھ سفر میں شہر کا وہ شخص بھی شامل تھا، جسے حکمرانوں نے ہر دفعہ 'آخری پائیدان' پر کھڑا آدمی بتایا، جس کے لیے انہوں نے دعوے تو بہت کیے پر اصل میں کیا کیا، اس کا کوئی لیکھا جوکھا نہیں۔ تیز بھاگتی، رفتار بھرتی ٹیکسیاں، نجی کاروں اور سفر کے کئی مہنگے وسائل کے درمیان اسے راحت میں نے ہی دی، کیونکہ میرا کرایہ آج بھی ایک چائے کے کپ سے کم ہی ہے۔ یعنی 7 سے 8 روپے۔ 1990 کا دور تھا تو میرے دو اسٹاپ کے بیچ صرف چونّی (25 پیسے) دے کر سفر کیا جا سکتا تھا۔ میں آدمی کی جیب کا حال جانتی تھی اس لیے کفایتی بھی تھی۔


اس کفایت نے ہی مجھے اس قابل بنایا کہ جب بھی کسی شاہ کار کو کولکاتا کا خاکہ کھینچنا ہوا، تو اس نے پہلے مجھے منتخب کیا۔ ستیہ جیت رے کی 1963 میں آئی فلم مہانگر دیکھئے۔ کولکاتا جیسے بڑے شہر میں بسنے والی مڈل کلاس فیملی کی ادھیڑ بُن کو انہوں نے ٹرام کے سہارے ہی پردے پر اتارا۔ اس عظیم بنگالی فلم کا اوپننگ سین ہی ٹرام کی کیبل سے اٹھتی چنگاری ہے، فلم دیکھیں تو سمجھ آئے گا کہ یہ چنگاری لیڈ کیریکٹر کے اندر چل رہے ادھیڑ بن کی چنگاری ہے۔ پردے پر جس طرح سے تقریباً ڈیڑھ منٹ تک صرف ٹرام کا کیبل ہی دکھایا گیا، یہ وہ اوبن تھی، جسے ناظرین نے خود بہ خود محسوس کر لیا اور جان گئے کہ فلم میں جو شادی شدہ جوڑا دکھایا جا رہا ہے، اس کی زندگی کتنی پھیکی کتنی مایوس ہے۔

اس کے برعکس ستیہ جیت رے کی اپور سنسار میں (اپو ٹرائلوجی) میں ٹرام وہ جگہ ہے، جہاں ایک نوجوان اپو کے لیے خواب کی دنیا ہے۔ جس طرح ٹرام اس کے سامنے سے گزر جاتی ہے، وہ ستیہ جیت رے کا فلمایا گیا سب سے انوکھا روپک ہے کہ کیسے دھیرے دھیرے وقت آگے بڑھ چلا ہے۔ یہ ٹھیک ایسا ہی احساس ہے کہ 'کل کی ہی بات ہو'۔ فلم کو 1960 کے لندن فلم فیسٹیول میں سدر لینڈ ایوارڈ فار بیسٹ اوریجنل اینڈ امیجنیٹیو ملا تھا۔


قلم بازوں نے بھی میری تعریف میں کافی قلمیں خالی کی ہیں۔ خود گرو دیو میرے موہ میں ایسے بندھے کہ بغیر میرے کلکتہ کا تصور وہ بھی نہیں کر سکے۔ ٹیگور نے اپنی کویتا 'سوپن' میں میرا کچھ ایسا ذکر کیا ہے، جس میں جب وہ اس شہر کی باریکیاں گناتے ہیں تو لکھتے ہیں کہ 'کلکتہ کی سانپ جیسی سڑک پر ٹرام کا بلکھانا' ایسے ہی بانگلہ کے مشہور ناول نگار سنیل بندوپادھیائے کی ایک کویتا 'نیرا' ہے۔ اس میں لمحہ لمحہ بدلتے نیرا کے چتّ کے لیے ٹرام ایک روپک ہے۔

کُل جمع یہ کہ میں صرف اسٹیل کی پٹریوں پر دوڑنے والی ایک ڈبے کی ٹرین جیسی گاڑی بھر نہیں ہوں۔ کلکتہ سے کولکاتا ہو چکے شہر کے لیے ناسٹلجیا ہوں۔ وہ جنہوں نے کلکتہ میں کل کی صبحیں اور دوپہری گزاری ہیں، اور اب ذمہ داریوں نے جنہیں شہر سے دور کر دیا ہے۔ وہ جن کی زندگی میں اب شام ہو چلی ہے وہ بھی ڈھلتے سورج کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ اس دور کو جب انہوں نے لڑکپن میں دوستوں کے ساتھ ٹرام میں سوار ہونے کے لیے دوڑ لگائی ہے۔ (بشکریہ نیوز پورٹل ’آج تک‘)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔