کسان تحریک: مرکز اور پنجاب حکومت آمنے سامنے، وزارت داخلہ کو مکتوب کے ذریعے جواب

پنجاب حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ کسان دہلی میں احتجاج کرنے جا رہے تھے لیکن نقل و حرکت پر پابندی کی وجہ سے وہ پنجاب اور ہریانہ کی سرحدوں پر رکے ہوئے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>کسانوں کے احتجاج کی علامتی تصویر: سوشل میڈیا</p></div>

کسانوں کے احتجاج کی علامتی تصویر: سوشل میڈیا

user

قومی آواز بیورو

کسانوں کی تحریک کے معاملے میں پنجاب اور مرکزی حکومت آمنے سامنے آ گئی ہیں۔ کسانوں پر داغی جا رہی ربڑ کی گولیوں و آنسو گیس کے گولوں پر پنجاب حکومت نے اعتراض کرتے ہوئے مرکزی وزارت داخلہ کو ایک مکتوب لکھا ہے جس میں کسانوں کے ساتھ ہمدردی برتنے کی گزارش کی ہے۔ دراصل مرکزی حکومت نے پنجاب حکومت سے کسان تحریک کے متعلق کچھ سوالات پوچھے تھے جس کے جواب میں یہ خط مرکزی وزارت داخلہ کو پنجاب کے چیف سکریٹری کے ذریعے لکھا گیا ہے۔

اس خط میں کہا گیا ہے کہ ’’یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ ریاستی حکومت لوگوں کو شمبھو اور دھابھی-گرجن بارڈر پر جمع ہونے کی اجازت دے رہی ہے۔‘‘ چیف سکریٹری کا کہنا ہے کہ کسان دہلی میں احتجاج کرنے جا رہے تھے لیکن نقل و حرکت پر پابندی کی وجہ سے وہ پنجاب اور ہریانہ کی سرحدوں پر رکے ہوئے ہیں۔


مرکز کو بھیجے گئے جواب میں ہریانہ پولیس کی طرف سے کسانوں پر آنسو گیس کے گولے، ربڑ کی گولیوں اور جسمانی طاقت کے استعمال کا بھی ذکر ہے۔ ہریانہ پولیس کی طرف سے استعمال کی گئی طاقت کا حوالہ دیتے ہوئے پنجاب حکومت نے کہا کہ ’’اب تک 160 سے زیادہ لوگ زخمی ہو چکے ہیں۔ اس کے بعد بھی پنجاب حکومت نے امن و امان کی صورتحال کو ذمہ داری سے برقرار رکھا ہے۔‘‘ پنجاب حکومت نے واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ ’’کسانوں کے ساتھ مزید ہمدردی برتنے کی ضرورت ہے۔‘‘

علاوہ ازیں اس مکتوب میں کسانوں کے ساتھ ہوئی گفتگو سے متعلق ریاست کے وزیر اعلی بھگونت مان کے موقف کے بارے میں بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔ مرکز کو بھیجے گئے جواب کے مطابق اب تک ہونے والی چار میٹنگوں میں سے تین میں وزیر اعلیٰ پنجاب موجود تھے۔ پنجاب کے چیف سکریٹری نے کہا کہ ’’پنجاب پولیس کی جانب سے ڈی آئی جی رینک کے افسران اور پی پی ایس افسران سمیت 2000 پولیس اہلکار امن و امان کے قیام کے لیے مسلسل کام کر رہے ہیں۔ حکومت صورتحال پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے۔‘‘ پنجاب حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’ضرورت پڑنے پر تمام ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔