کسان تحریک ختم کرنے پر نہیں ہو سکا کوئی فیصلہ، حکومت سے کئی مطالبات پر وضاحت کا انتظار!
سنیوکت کسان مورچہ کا کہنا ہے کہ کئی ایشوز پر حکومت سے وضاحت طلب کی گئی ہے جس کا جواب ہنوز نہیں ملا ہے، جواب ملنے کے بعد ہی تحریک ختم کرنے کے بارے میں آخری فیصلہ لیا جائے گا۔
’’کسان تحریک جاری ہے، اور اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کسانوں کے مطالبات مان نہیں لیے جاتے۔‘‘ سنیوکت کسان مورچہ نے آج سنگھو بارڈر پر ہوئی میٹنگ میں حکومت کی طرف سے پیش کردہ تجاویز پر تبادلہ خیال کے بعد یہ اعلان کیا۔ مورچہ نے کہا کہ میٹنگ میں حکومت کی تجاویز کے ہر پہلو پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بعد طے کیا گیا ہے کہ حکومت کی طرف سے کچھ ایشوز پر وضاحت پیش کی جانی چاہیے۔ اس سلسلے میں کسان بدھ کو پھر میٹنگ کریں گے اور آگے کے منصوبے پر تبادلہ خیال کریں گے۔
ایک خبر رساں ایجنسی کے مطابق کسانوں کے اہم مطالبات ایم ایس پی پر قانون اور مظاہرین کسانوں کے خلاف درج مقدمات واپس لینے سے متعلق ہیں۔ ایک کسان لیڈر کلونت سنگھ سندھو نے بتایا کہ مرکزی حکومت ایم ایس پی طے کرنے کے لیے جو کمیٹی بنا رہی ہے، اس میں سنیوکت کسان مورچہ کے پانچ اراکین شامل ہوں گے۔ لیکن ساتھ ہی کسانوں نے کہا کہ اس پر حکومت کی طرف سے وضاحت ہونی چاہیے کہ کسانوں کے علاوہ دیگر کون لوگ ہوں گے۔ کسانوں نے مرکزی حکومت کے سامنے جو مطالبات رکھے ہیں، ان میں پانچ انتہائی اہم ہیں۔ یہ مطالبات اس طرح ہیں:
ایم ایس پی پر قانون بنایا جائے۔
کسانوں پر درج مقدمات واپس لیے جائیں۔
کسان تحریک کے دوران شہید ہوئے کسانوں کے کنبہ کو معاوضہ دیا جائے۔
پرالی بل کو منسوخ کیا جائے۔
لکھیم پور کھیری معاملے میں وزیر اجے مشرا کو برخاست کیا جائے۔
سنیوکت کسان مورچہ کے لیڈر یدھویر سنگھ نے بتایا کہ ’’سبجیکٹ نوٹ کر لیے گئے ہیں، انھیں حکومت کو بھیج دیا جائے گا۔ امید ہے کہ کل تک حکومت کی طرف سے جواب مل جائے گا۔ اس پر کل 2 بجے پھر سے میٹنگ ہوگی۔ حکومت کی طرف سے جو بھی جواب آئے گا، اس پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔‘‘
اس درمیان بھارتیہ کسان یونین لیڈر راکیش ٹکیت نے کہا کہ ’’حکومت کہتی ہے کہ پہلے دھرنا ختم کرو، اس کے بعد مقدمے واپس لیے جائیں گے۔ لیکن ایسا تو حکومت ایک سال سے کہہ رہی ہے۔ جب تک سارے مطالبات نہیں مان لیے جائیں گے، کسان گھر نہیں جائیں گے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ہمیں مطالبات کو لے کر کچھ اندیشے ہیں جنھیں حکومت دور کرے، اس کے بعد کل کی میٹنگ میں اس پر غور کیا جائے گا۔
کسان لیڈر گرنام سنگھ چڈھونی کا کہنا ہے کہ ’’ہم تحریک کے دوران شہید ہوئے 700 کسانوں کے لیے معاوضہ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں ’’تحریک میں 700 سے زیادہ کسانوں نے جان گنوائی ہے، جن کے لیے پنجاب حکومت نے 5 لاکھ روپے معاوضہ اور رشتہ دار میں ایک کو سرکاری ملازمت دینے کی بات کی ہے۔ یہی ماڈل مرکزی حکومت کو بھی نافذ کرنا چاہیے۔‘‘
کسانوں کا کہنا ہے کہ ’’جو کیس واپس لینے کی بات ہے، اس پر حکومت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ تحریک واپس لینے کے بعد کیس واپس لینے کی شروعات ہوگی۔ ہریانہ میں 48 ہزار لوگوں پر معاملے درج ہیں، اور بھی ملک بھر میں معاملے درج ہیں۔ حکومت کو فوراً معاملے واپس لینے کی شروعات کرنی چاہیے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔