بی جے پی کی خام خیالی!
وزیر اعظم کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملک میں اتحاد و یکجہتی کے فروغ کے لیے کام کریں۔ عوام کے مختلف طبقات کو ایک دوسرے سے قریب لانے کی کوشش کی جائے
دنیا میں اکثر لوگوں میں یہ عادت دیکھی گئی ہے کہ جب وہ پورے دن ناخوشگوار حالات کے تھپیڑوں کا سامنا کر کے رات کو بستر است راحت پر پہنچتے ہیں اور تھکان کی وجہ سے نیند انہیں چڑھا رہی ہوتی ہے تو وہ کروٹیں بدلتے ہوئے خیالی سمندر میں غرق ہو جاتے ہیں اور پھر وہ یہ تصور کر کے من ہی من میں خوش ہوتے ہیں کہ بغیر پسینہ بہائے اگلے دن کا سورج ان کی زندگی میں روشنی لے کر آئے گا اور وہ دنیا کے سب سے امیر آدمی بن جائیں گے یا صبح آنکھ کھلتے ہی انہیں جیک پاٹ لگ جائے گا جس سے وہ چشم زدن میں ہی زمین سے آسمان پر پہنچ جائیں گے۔
اس عادت کو عام زبان میں خام خیالی کہا جاتا ہے جس کا آج تقریباً سبھی شکار ہیں۔ خاص طور پر سیاستدانوں کی لمبی فہرست ہے جن کے اندر یہ ’بیماری‘ خطرناک سطح تک اپنی جڑیں مضبوط کر چکی ہے۔ اس فہرست میں ہمارے ملک کے وزیر اعظم اور ان کے حواریوں کا نام سرفہرست ہو سکتا ہے۔ کیونکہ یہ حضرات اکثر ایسی ایسی باتیں اور دعوے کرتے نظر آتے ہیں گویا وہ آسمان سے سبھی تارے توڑ کر لے آئیں گے اور ’بھائیو، بہنو‘ کے ہاتھ میں رکھ دیں گے۔ اس طرح کی باتوں سے ہی سیدھے سادے عام لوگوں کا سیاستدانوں سے بھروسہ اٹھتا جا رہا ہے۔
ایسی صورت میں عوام بھی اچھے بُرے کی تمیز نہیں کر پاتے ہیں۔ کیونکہ ایک ہی وقت میں جب کانگریس پارٹی کے لیڈر کہتے ہیں کہ ہم حکومت بننے پر 15 اگست کو ملک میں خالی اسامیوں پر تقرریوں کا آغاز کر کے بے روزگاری کم کریں گے وہیں بی جے پی کے لیڈر کہتے ہیں کہ ہمیں سی اے اے نافذ کرنے سے کوئی مائی کا لال نہیں روک سکتا ہے۔ دونوں جملوں سے صاف ہے کہ کون لوگ عوام کی خوشحالی چاہتے ہیں اور کون لوگ عوام کو خیالی پلاؤ کے انتظار کی لائن میں کھڑا کر دیتے ہیں۔ اب یہ ہماری صوابدید پر ہے کہ ہمیں روزگار چاہئے یا سی اے اے؟
ہم دیکھ رہے ہیں کہ رواں انتخابات کے لیے حکمراں جماعت کی طرف سے جس طرح کی انتخابی مہم چلائی جا رہی ہے اس نے سارے ملک کو مایوس کر دیا ہے۔ بی جے پی کی جانب سے انتخابی مہم کے معیارات کو انتہائی نچلی سطح تک پہنچا دیا گیا ہے۔ پہلے مرحلہ میں کسی حد تک حدود میں رہتے ہوئے مہم چلائی گئی تھی۔ تاہم جیسے ہی بی جے پی کو اندازے ہونے لگے کہ انتخابات میں اسے نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اس نے انتخابی مہم کا رخ ہی تبدیل کر دیا۔ دوسرے مرحلہ کے بعد سے تو بی جے پی کے تیور اس قدر جارحانہ ہو گئے کہ رائے دہندگان بھی متنفر نظر آنے لگے۔
بی جے پی نے ساری کوشش یہی کی کہ منفی سوچ و ذہنیت کے ساتھ مہم چلائی جائے۔ یہی وجہ رہی کہ بی جے پی کی جانب سے مہم کے روح رواں ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے راست ہندو۔ مسلم کارڈ کھیلنا شروع کر دیا۔ خواتین میں خوف اور اندیشے پیدا کرنے سے بھی انہوں نے گریز نہیں کیا۔ اس کے علاوہ دوسرے قائدین کی جانب سے بھی عوامی مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔ دوسرے مرحلہ میں بھی نقصانات کے اندیشوں کو دیکھتے ہوئے تیسرے مرحلے کے لیے رام مندر کو موضوع بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔
اب تو انتخابی مہم کے دوران عوام کو اکسانے اور بھڑکانے جیسی کوشش بھی کی گئی ہے اور خود وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ اگر کانگریس اور سماجوادی پارٹی کو مرکز میں اقتدار مل جاتا ہے تو رام مندر پر بلڈوزر چلا دیا جائے گا۔ اس طرح وزیر اعظم نے ملک کے عوام کو اکسانے اور بھڑکانے کی کوشش کی ہے۔ عوام کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ ملک کا الیکشن کمیشن اپنے وجود کا احساس دلانے تک کو تیار نہیں ہے اور اس طرح کی سنگین خلاف ورزیوں پر بھی ’خاموشی‘ اختیار کی جا رہی ہے۔
اتر پردیش جیسی اہمیت کی حامل ریاست میں وزیر اعظم لگاتار اپنی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں اور وہ مسلسل عوامی جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو وہ بی جے پی لیڈر نہیں بلکہ ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ انہیں اپنی سرکاری ذمہ داریوں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے جسے انہوں نے گذشتہ چند ماہ کے عرصہ میں بالکل فراموش کر دیا ہے۔ وہ جس طرح کی زبان اور لب و لہجہ کا استعمال کر رہے ہیں وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ انہیں ملک کے جلیل القدر عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہوتے ہوئے ایسی زبان اور لب و لہجہ کے استعمال سے گریز کرنا چاہئے۔
تاہم نریندر مودی کو انتخابی قوانین اور سماجی ہم آہنگی کی کوئی فکر نہیں ہے۔ وزیر اعظم کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملک میں اتحاد و یکجہتی کے فروغ کے لیے کام کریں۔ عوام کے مختلف طبقات کو ایک دوسرے سے قریب لانے کی کوشش کی جائے۔ سماج میں دوریوں کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کئے جائیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی کو اس کی کوئی فکر ہی نہیں ہے اور وہ کسی بھی قیمت پر لگاتار تیسری معیاد کے لیے وزارت عظمی کا عہدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ قوانین اور ضوابط کی صریح خلاف ورزی کرنے سے بھی گریز نہیں کر رہے ہیں۔
حکمراں جماعت کے قائدین کی بد زبانی سے اب یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ رواں انتخابات میں بی جے پی کی حالت خراب ہے اور یہی وجہ ہے کہ ’اب کی بار 400 پار‘ کا خام خیالی نعرہ دینے والے بی جے پی لیڈران بشمول وزیراعظم مودی خود اس نعرے کا ذکرنہیں کر رہے ہیں۔ شاید انہیں پتہ چل گیا ہے کہ بے روزگاری، مہنگائی جیسے مسائل سے نوجوان طبقہ کافی مایوس ہے۔ یہ طبقہ اب ان رہنماوں کی طرف دیکھنے لگا ہے جو روزگار فراہم کرنے کی گارنٹی دے رہے ہیں۔ اس طبقے کو یہ بھی یقین ہے کہ جو آدمی گزشتہ 10 سالوں میں اپنے وعدے پورے نہیں کر پایا اس سے آگے کیا امید کی جا سکتی ہے۔
لہٰذا اب جبکہ چار مراحل کی مہم ختم ہو چکی ہے اور پیر کو ووٹ ڈالے جانے باقی ہیں ایسے میں یہ اندیشے بھی بے بنیاد نہیں ہو سکتے کہ بی جے پی اور اس کے رہنماؤں کی جانب سے آئندہ مراحل کے انتخابات کے لیے مہم کو مزید پستی اور اخلاقی گراوٹ کا شکار کر دیا جائے گا۔ ملک کے رائے دہندگان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس حقیقت کو سمجھیں کہ بی جے پی خود اپنے حق میں ووٹ مانگنے کے موقف میں نہیں رہ گئی ہے۔ وہ صرف منفی ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے اور منفی ووٹ لینے کے بعد وہ ترقی کے لیے کام کرنے کی بجائے منفی ایجنڈہ کی تکمیل ہی میں سرگرم رہے گی۔
(یہ مضمون نگار کے اپنے خیالات ہیں، اس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔