خواجہ یونس قتل معاملہ: سرکاری وکیل کی تقرری میں تاخیر سے عدالت ناراض
سیشن جج نے کہا کہ لگاتار یاد دہانی اور نوٹس جاری کرنے کے باوجود سی آئی ڈی نے ٹرائل کے جلد از جلد مکمل کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے، بلکہ اس نے اس مقدمہ کو لے کر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
ممبئی: سابق اسسٹنٹ کمشنر آف پولیس سچن وازے اور دیگر پولیس کانسٹبلوں کے خلاف قائم خواجہ یونس کے قتل کے مقدمہ کی سماعت کرنے والی سٹی سول سیشن عدالت میں قائم خصوصی سی آئی ڈی عدالت نے وکیل استغاثہ کی تقرری میں ہونے والی تاخیر کا سخت نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 12سالوں سے ٹرائل سست روی کا شکار ہے اور اس میں مظلوم کا کوئی قصور نہیں ہے بلکہ یہ پولیس کی ناکامی ہے۔ سیشن جج ڈاکٹر یو جے مورے نے کہا کہ لگاتار یاد دہانی اور نوٹس جاری کرنے کے باوجود سی آئی ڈی نے ابھی تک ٹرائل کے جلد از جلد مکمل کرنے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کیے ہیں، سی آئی ڈی نے اس مقدمہ کو لیکر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
عدالت نے مزید کہا کہ گزشتہ سال سی آئی ڈی نے وکیل استغاثہ کو فارغ کر دیا تھا جس کے بعد انہیں فوراً کسی دوسرے سرکاری وکیل کی تقرری کرنا تھی لیکن ایک طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک سرکاری وکیل کی تقرری نہیں ہوئی ہے جس کی وجہ سے مقدمہ التواء کا شکار ہے۔
اس ضمن میں خواجہ یونس کی والدہ آسیہ بیگم کی جانب سے سچن وازے اور دیگر تین پولیس والوں کی ملازمت پر بحالی کے خلاف ممبئی ہائی کورٹ میں دو پٹیشن داخل کرنے والی جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے کہا کہ خواجہ یونس کے قاتلوں کو سزا دلانے کے لئے حکومت مہاراشٹر کتنی سنجیدہ ہے اس کا اندازہ سیشن جج کے تبصرے سے لگایا جاسکتا ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ سیشن جج نے ایسا تبصرہ کیا ہے اس کے باوجود سی بی آئی عدالت کے تبصروں کو نظر انداز کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابق اسسٹنٹ پولیس انسپکٹر سچن وازے، پولیس کانسٹبل راجندر تیوار، سنیل دیسائی کی ملازمت پر بحالی کو ممبئی ہائی کورٹ میں سینئر ایڈوکیٹ مہر دیسائی کے توسط سے چیلنج کیا گیا ہے، مقدمہ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے نیز مقدمہ پر جلد سماعت کے لئے ہائی کورٹ کے رجسٹرار سے رجوع کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ 23 دسمبر 2002 کو خواجہ یونس کو 2، دسمبر 2002 کو گھاٹ کوپر میں ہونے والے بم دھماکہ کے الزام میں گرفتارکیا گیا تھا جس کے بعد سچن وازے نے دعوی کیا تھا کہ خواجہ یونس پولیس تحویل سے اس وقت فرار ہوگیا جب اسے تفتیش کے لئے اورنگ آباد لے جایا جا رہا تھا حالانکہ سی آئی ڈٖی نے سچن وازے کے دعوے کی نفی کرتے ہوئے معاملے کی تفتیش کے بعد سچن وازے سمیت دیگر تین پولیس والوں کے خلاف خواجہ یونس کو قتل کرنے کا مقدمہ قائم کیا تھا جو فاسٹ ٹریک عدالت میں زیر سماعت ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔