بحیثیت صدر کانگریس کھڑگے کے دو سال مکمل، نئے اور ترقی پسند دور کا آغاز

ملکارجن کھڑگے نے کانگریس میں دو سال کی قیادت کے دوران اہم تبدیلیاں متعارف کرائیں۔ ان کی قیادت میں پارٹی نے جمہوری اقدار کو فروغ دیا اور کئی ریاستوں میں انتخابی کامیابیاں حاصل کیں

<div class="paragraphs"><p>ملکارجن کھڑگے /&nbsp; تصویر: ’ایکس‘&nbsp;kharge@</p></div>

ملکارجن کھڑگے / تصویر: ’ایکس‘kharge@

user

قومی آواز بیورو

از: ڈاکٹر بی ایس شیجو

ملکارجن کھڑگے نے دو سال پہلے کانگریس کی قیادت سنبھالی، جس سے پارٹی میں ایک نئے اور ترقی پسند دور کا آغاز ہوا۔ ان کی قیادت میں پارٹی نے اندرونی جمہوریت کو فروغ دیا۔ ان کا صدر بننا، ڈاکٹر ششی تھرور کے ساتھ ایک جمہوری مقابلے کے بعد ممکن ہوا، جو کانگریس کے جمہوری اقدار کی عکاسی کرتا ہے۔ کھڑگے کا سفر، جو بلاک سیکریٹری سے قومی صدر تک پہنچا، کانگریس کارکنوں کے لیے ایک مشعل راہ ہے۔ اپنے ان دو سالوں کے دوران آپ نے روایات اور تجربات کی بنیاد پر پارٹی کو نئی توانائی فراہم کی اور کارکنان کی مقبول حمایت حاصل کی۔

کھڑگے نے ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وفاداری، عزم اور محنت سے قیادت کی جس نے کانگریس میں ایک نئے، جامع اور تبدیلی کے دور کا آغاز کیا۔ رائے پور پلینری کانفرنس میں ان کے وژن نے پارٹی میں امید کی ایک نئی لہر پیدا کی۔ راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ سے تحریک لیتے ہوئے کانگریس نے کرناٹک، تلنگانہ اور ہماچل پردیش میں کامیابیاں حاصل کیں، جبکہ جموں و کشمیر میں انڈیا فرنٹ کے طور پر اقتدار میں شامل ہوئی۔ لوک سبھا میں پارٹی کی تعداد 44 سے بڑھ کر 99 تک پہنچنا ان کی کامیاب قیادت کی علامت ہے۔


کھڑگے نے انڈیا اتحاد کو مضبوط کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا اور ذات پر مبنی مردم شماری پر ان کے موقف نے ان کی سماجی انصاف کی حمایت کو مزید مضبوط کیا۔ اگرچہ لوک سبھا انتخابات کے بعد ہریانہ میں کچھ مشکلات آئیں، مگر پارٹی کے ووٹ شیئر میں اضافہ امید افزا ہے۔ کھڑگے نے پارٹی کی حکمت عملی کو نئے دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے پر زور دیا اور اندرونی اختلافات کو حل کرنے میں بھی کامیاب رہے۔ ان تبدیلیوں نے پارٹی کو نئے عزم کے ساتھ آگے بڑھایا۔

کانگریس کے سابق صدور سونیا گاندھی، راہل گاندھی اور جنرل سیکریٹری کے سی وینو گوپال جیسے لیڈروں کی حمایت نے کھڑگے کی رہنمائی کو مزید مضبوط کیا۔ اپنے عمر کے تقاضے کے برعکس، کھڑگے نے لوک سبھا انتخابات کے دوران 100 سے زیادہ ریلیوں اور 20 پریس کانفرنسوں سے خطاب کیا۔ پارٹی کی توجہ اب مہاراشٹر اور جھارکھنڈ کے اسمبلی انتخابات پر ہے، جہاں کھڑگے کی مخلصانہ کوششیں مزید کامیابی کے لیے جاری ہیں۔


بی جے پی لیڈران کے بار بار کے حملے کھڑگے کی قیادت سے خوف کا اشارہ دیتے ہیں۔ حال ہی میں، وائناڈ میں پرینکا گاندھی کے کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت بی جے پی نے سوشل میڈیا پر یہ تاثر دیا کہ کھڑگے کو دفتر میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی کیونکہ وہ نہرو خاندان کے رکن نہیں ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کھڑگے پرینکا گاندھی کے بائیں جانب موجود تھے، جبکہ راہل گاندھی دائیں جانب بیٹھے تھے۔ کانگریس پارلیمانی پارٹی کی چیئرپرسن سونیا گاندھی ان کے پیچھے دوسری قطار میں بیٹھی تھیں۔ اس کے باوجود بی جے پی لیڈروں نے کھڑگے کی ضلع کلکٹر کے دفتر میں چہل قدمی کی ایک لوپ ویڈیو کلپ کا استعمال کرتے ہوئے بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا۔

یہ واضح ہے کہ کھرگے کی مستحکم قیادت اور اتحاد کو مضبوط کرنے کی کوششوں نے کانگریس کی حمایت کی بنیاد کو پھر سے تقویت بخشی ہے، جس کا بی جے پی کو خوف ہے۔ کھڑگے کی آزادی پر شک ظاہر کرتے ہوئے بی جے پی کا مقصد رائے عامہ کو متاثر کرنا اور کانگریس کے اندرونی اتحاد کو غیر مستحکم کرنا ہے۔ یہ دشمنی سنگھ پریوار اور بی جے پی کی وسیع حکمت عملی کا حصہ ہے۔

ان چیلنجوں کے باوجود کھڑگے کی قیادت ثابت قدم ہے۔ وہ آمریت کے سائے کو ختم کرنے کے لیے انتھک محنت کر رہے ہیں، ہندوستان کو جمہوریت اور سیکولرازم کے ذریعے متعین مستقبل کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مساوات اور انصاف کا ہندوستان، جہاں جمہوریت بحال ہو، بنانے کے لیے ان کا عزم اٹل ہے۔ انتخابی مہم کے دوران، کٹھوعہ، کشمیر میں گر جانے کے بعد انہوں نے کہا، ’’میں اتنی جلدی مرنے والا نہیں ہوں، میں اس وقت تک زندہ رہوں گا جب تک ہم مودی کو ہٹا نہیں دیتے، میں آپ کی بات سنوں گا اور آپ کے لیے لڑوں گا۔‘‘ یہ الفاظ ان کی قیادت کے ساتھ، لاکھوں کانگریسی کارکنوں کے لیے امید پیدا کرتے ہیں جنہوں نے جمہوری اور سیکولر اقدار کو برقرار رکھا ہے۔

(مضمون نگار اے آئی سی سی ریسرچ ڈیپارٹمنٹ کی کیرالہ یونٹ کے چیئرمین ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔