یوگی حکومت میں خاکی وردی پھر داغدار، داروغہ کو گولی مار بدمعاش سرغنہ کو لے کر فرار
گینگسٹر روہت سانڈو کے خلاف مختلف تھانوں میں 44 مقدمات درج ہیں، جن میں سے تنہا منصور تھانہ میں 16 معاملے ہیں۔ جرائم پیشہ مغربی اتر پردیش کے جرائم کی دنیا کا بڑا نام ہے۔
اتر پردیش میں انکاؤنٹر کے شور کے درمیان نظامِ قانون کو بہتر بنانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، لیکن یہ محض کاغذی باتیں ہیں۔ اس کا ثبوت منگل کے روز مظفر نگر میں پیش آیا سنسنی خیز واقعہ ہے جس نے یوگی حکومت میں خاکی وردی پر داغ لگا دیا ہے۔ 3 جولائی کو جانسٹھ تھانہ حلقہ میں برسرعام ایک بدنام زمانہ گینگسٹر روہت سانڈو کو پولس حراست سے چھڑا لیا گیا۔ اس دوران پولس پر اندھا دھند فائرنگ ہوئی جس میں زخمی داروغہ زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے۔
واقعہ کی سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ جس وقت یہ واقعہ سرزد ہوا اسی وقت مظفر نگر کے نئے پولس کپتان کی شکل میں ابھشیک یادو ذمہ داری سنبھال رہے تھے۔ گینگسٹر روہت سانڈو کے خلاف مختلف تھانوں میں 44 مقدمات درج ہیں، جن میں سے تنہا منصور تھانہ میں 16 معاملے ہیں۔ جرائم پیشہ مغربی اتر پردیش کے جرائم کی دنیا کا بڑا نام ہے اور اس کے خلاف درج سبھی مقدمے انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں۔
اسے مرزا پور سے مظفر نگر ایک قتل کی کوشش کے معاملے میں پیشی پر لایا گیا تھا۔ پولس کے مطابق واقعہ جانسٹھ کے پاس ایک ہوٹل پر ہوا جہاں پولس روہت سانڈو کو لے کر کھانا کھانے کے لیے بیٹھی تھی۔ اسے مرزا پور جیل سے یہاں لایا گیا تھا جہاں اسے باغپت میں منا بجرنگی کے قتل کے بعد منتقل کیا گیا تھا۔
عینی شاہدین کے مطابق دوپہر بعد تقریباً 3 بجے کھانے کے دوران اچانک کار سے تین نوجوان آئے اور انھوں نے اندھا دھند فائرنگ کرنی شروع کر دی۔ ان سبھی کے پاس جدید اسلحے تھے۔ فائرنگ کے دوران بیشتر پولس اہلکار اپنی جان بچانے کے لیے چھپنے میں لگے تھے جب کہ ایک داروغہ دُرگ وجے سنگھ نے ہمت کے ساتھ مقابلہ کیا۔ بدمعاشوں نے اسے گولی مار دی۔
واقعہ کو انجام دینے کے بعد جرائم پیشے روہت عرف سانڈو کو اپنے ساتھ لے کر فرار ہو گئے۔ واقعہ کے بعد وہاں پر افرا تفری کا ماحول پیدا ہو گیا اور تمام بڑے افسر موقع پر پہنچ گئے۔ ضلع کی تمام سرحدیں سیل کر دی گئیں۔ نئے پولس کپتان ابھشیک یادو کے مطابق روہت بچ کر نہیں جا پائے گا۔
اس واقعہ کے بعد سے مغربی یو پی میں گینگ وار کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ روہت سانڈو کی مغربی یو پی کے ایک بڑے جرائم پیشہ سشیل مونچھ سے عداوت جگ ظاہر ہے۔ روہت منصور پور میں سشیل مونچھ کے قریبی یشپال راٹھی کا قتل کر چکا ہے۔ مجرمانہ معاملوں پر گہری نظر رکھنے والوں کے مطابق سشیل مونچھ اس وقت جیل میں ہے اور ایسے وقت میں روہت مغربی اتر پردیش کے کرائم ورلڈ پر راج کرنا چاہتا ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ گزشتہ ایک ماہ میں مغربی اتر پردیش کے میرٹھ زون میں 29 انکاؤنٹرس ہوئے ہیں جن میں چار بدمعاشوں کی موت ہو گئی۔ پولس ان انکاؤنٹرس کو اپنی حصولیابی کی شکل میں شمار کرتی ہے اور ’کرائم فری اسٹیٹ‘ کا نعرہ دیتی ہے۔ لیکن یہ بات صرف فائلوں میں ہی نظر آ رہی ہے۔
مظفر نگر کے وکیل دیویندر سنگھ کے مطابق انکاؤنٹرس بڑے بدمعاشوں کا نہیں کیا جا رہا ہے کیونکہ وہ منصوبہ بندی کے ساتھ جیل میں ہیں یا کسی محفوظ جگہ پر ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر جیل سے ہی کرائم کا واقعہ انجام دے رہے ہیں۔ اس لیے رنگداری جیسا جرم ابھی خوب پھل پھول رہا ہے۔
مغربی یو پی میں کسی بڑے گینگسٹر کے فرار ہونے کا یہ دوسرا بڑا معاملہ ہے۔ اس سے قبل اپریل میں میرٹھ ضلع کی بدنام زمانہ شخصیت بدن سنگھ بدو کو پولس حراست سے بھگا لیا گیا تھا۔ بدو بھی یہاں ایک ہوٹل میں کھانا کھانے کے لیے رکا تھا جہاں شراب میں نیند کی گولیاں دے کر پولس اہلکاروں کو بیہوش کر دیا گیا۔ بدن سنگھ مظفر نگر سے چھڑائے گئے گینگسٹر روہت سانڈو کے مخالف گروپ کا مانا جاتا ہے۔ بدو پر ڈھائی لاکھ کا انعام ہے اور اس کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا جا سکا ہے۔
ذرائع کے مطابق روہت سانڈو گزشتہ کچھ وقت سے پوروانچل کے کچھ مافیا ڈان کے رابطے میں ہے۔ پوروانچل کے کچھ مافیا ڈان مغرب میں اپنی بالادستی قائم کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ روہت ایک مشہور شارپ شوٹر بھی ہیں۔ اس کے فرار ہونے میں مرزا پور اور فیض آباد کنکشن کی بات ہو رہی ہے، حالانکہ فرار ہونے میں مدد کرنے والے لوگ مقامی ہیں کیونکہ انھیں ہر ایک راستے کی جانکاری تھی۔ روہت کے خوف کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے فرار ہونے کی خبر کے ساتھ ہی منصور پور کے انسپکٹر سنجیو کمار نے سوشل میڈیا پر اس کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ہمارے تھانہ حلقہ کا بدمعاش اس کے ساتھیوں نے چھڑا لیا ہے، آپ سبھی لوگوں کو مطلع کیا جاتا ہے کہ اپنی سیکورٹی کا خیال رکھیں، خاص کر وہ لوگ جس سے اس کی دشمنی ہو۔‘‘
اتنا بڑا جرائم پیشہ ہونے کے باوجود مرزا پور پولس کے صرف چار اہلکاروں کو اس کے ساتھ بھیجا جانا بھی سوال کھڑے کرتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 03 Jul 2019, 7:10 PM