سبریمالہ: بند کے دوران بی جے پی سمیت کئی تنظیموں کا پرتشدد مظاہرہ، ایک ہلاک

کیرالہ کے سبریمالہ واقع بھگوان ایپّا کے مندر میں دو خواتین کے داخل ہونے سے ناراض بی جے پی سمیت کئی تنظیموں نے پرتشدد مظاہرہ شروع کر دیا ہے۔ مظاہرین نے 79 بس سمیت کئی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

کیرالہ کے سبریمالہ مندر میں 40 سال عمر کی دو خواتین کے داخلے کے بعد احتجاجی مظاہرہ مزید تیز ہو گیا ہے۔ کئی ہندوتوا تنظیموں کے ساتھ بی جے پی کے ذریعہ ریاست گیر بند کے دوران خوب پرتشدد مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اس تشدد میں ایک شخص کی موت واقع ہو گئی ہے جس کی پہچان 55 سالہ چندن انیتھن کے طور پر ہوئی ہے۔ ان مظاہروں میں ریاستی ٹرانسپورٹ کی تقریباً 7 درجن بسوں کو بری طرح نقصان بھی پہنچایا گیا ہے۔

دوسری طرف ناراض مظاہرین نے ریاستی سکریٹریٹ کو تقریباً پانچ گھنٹے تک میدانِ جنگ میں تبدیل رکھا۔ ہندوتوا تنظیموں اور بی جے پی کارکنان آپس میں بھی متصادم ہوئے ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا۔ پولس کو حالات پر قابو پانے میں کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا اور آنسو گیس کا گولہ چھوڑ کر بھیڑ کو منتشر کیا گیا۔

ارناکولم میں مظاہرین کے ذریعہ خاتون پولس اہلکار کو نشانہ بنائے جانے کی خبریں بھی موصول ہو رہی ہیں۔ ذرائع کے مطابق دیہی علاقے میں ڈیوٹی پر تعینات اسپیشل برانچ کی خاتون اہلکاروں پر حملہ کرنے کے الزام میں دو لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور دو لوگ حراست میں بھی لیے گئے ہیں۔ ایک خاتون صحافی کو بھی نشانہ بنائے جانے کی خبریں موصول ہو رہی ہیں اور ساتھ ہی میڈیا طبقہ کو بھی لگاتار نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

کیرالہ میں سبریمالہ مندر کے اندر خواتین کی انٹری کے پیش نظر شروع ہوئے پرتشدد مظاہروں پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ریاست کے وزیر اعلیٰ پینارائی وجین نے کہا کہ ’’خواتین کو سیکورٹی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حکومت نے اس ذمہ داری کو بخوبی نبھایا۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’آر ایس ایس کے لوگ سبریمالہ کو جنگ کا میدان بنانا چاہتے ہیں۔‘‘

پرتشدد مظاہروں کی وجہ سے پولس انتظامیہ اور ٹرانسپورٹیشن کو زبردست مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس سلسلے میں جانکاری دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے میڈیا کو بتایا کہ ’’اس تشدد میں ریاستی ٹرانسپورٹ کی 79 بسوں کو نقصان پہنچا ہے جب کہ 7 پولس گاڑیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ 39 پولس اہلکاروں پر بھی مظاہرین کے ذریعہ حملے کیے گئے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔