غیر مسلم صحافی نے اپنی بیٹی کا نام ’آصفہ‘ رکھا
کیرالہ کے حساس صحافی رجتھ رام کا کہنا ہے کہ ’’وہ میری بیٹی کی طرح تھی اس لیے میں نے دو ماہ کی اپنی بیٹی کا نام اَمیا سے بدل کر آصفہ رکھ دیا اور میری بیوی سندھیا اس سے بہت خوش ہے۔‘‘
’’میں سات سالہ بچی کا باپ ہوں اور اس ناطے سے اس درد کو محسوس کر سکتا ہوں۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ اس درد کو بیان کر سکوں۔ ہمارے ملک میں جس طرح کے ظالمانہ اور بربریت سے بھرپور واقعے ہو رہے ہیں، اسے دیکھ کر میں پریشان ہوں۔‘‘ درد اور اندوہ سے بھرا یہ بیان کیرالہ کے صحافی رجتھ رام کا ہے جو آصفہ کے ساتھ ہوئے مظالم سے تکلیف میں ہیں۔ دو بیٹیوں کے باپ رجتھ کی پہلی بیٹی چونکہ 7 سال کی ہے اس لیے وہ جب اپنی اس بیٹی کی جانب دیکھتے ہیں تو آصفہ کی یاد آ جاتی ہے۔ کٹھوعہ واقعہ کا اثر ان کے ذہن پر اس قدر پڑا کہ انھوں نے اپنی دو ماہ کی بیٹی کا نام آصفہ رکھ دیا۔
رجتھ رام اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ ’’آصفہ میری بیٹی کی طرح تھی، وہ پورے ملک کی بیٹی تھی۔ اس کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے بعد میں نے اپنی نوزائیدہ بیٹی اَمیا کا نام آصفہ رکھنے کا سوچا اور اس سلسلے میں اپنی بیوی سندھیا سے بات کی۔ سندھیا نے میری حوصلہ افزائی کی اور میرے اس فیصلے کو پسند فرمایا۔‘‘ رجتھ رام نے اپنے اس عمل سے ہندوستانی جمہوریت اور ملک کی گنگا-جمنی تہذیب میں یقین رکھنے والوں کا نہ صرف حوصلہ بڑھایا ہے بلکہ غلط کاری کرنے والوں اور بی جے پی و آر ایس ایس کے کند ذہن کارکنان کے منھ پر زبردست طمانچہ بھی لگایا ہے۔ رجتھ رام نے ثابت کیا ہے کہ آصفہ مسلمان کی بیٹی نہیں، پورے ملک کی بیٹی تھی۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ رجتھ رام نے آصفہ کے ساتھ ہوئے سلوک پر اپنے درد کا بیان اور اپنی دو ماہ کی بیٹی کا نام اَمیا سے بدل کر آصفہ رکھنے سے متعلق خبر فیس بک پر ڈالی تھی جو تیزی کے ساتھ وائرل ہو گئی۔ کیرالہ کے مشہور ملیالم اخبار ’ڈیلی ماتربھومی‘ میں صحافی کی ذمہ داری نبھا رہے رجتھ کی پوسٹ کو اس وقت یعنی 16 اپریل کی صبح تک 21 ہزار سے زیادہ بار شیئر کیا جا چکا ہے اور 40 ہزار سے زائد لائکس مل چکے ہیں۔ انھوں نے اپنے پوسٹ میں لکھا ہے کہ سات سالہ بچی کا باپ ہونے کے ناطے میں اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ سکا، اس سے بھی بھیانک کوئی اور منظر نہیں ہو سکتا۔ انھوں نے مزید لکھا کہ ’’ہندوستان میں بربریت کی انتہا ہو گئی ہے۔ جب دو بچیوں کے باپ ہونے کا تصور کرتے ہوئے اس طرح کی واردات پیش آتی ہے تو مجھے ڈر محسوس ہوتا ہے۔ وہ میری بھی بچی تھی۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔