کیرالہ کے آزاد صحافی صدیق کپن کی درخواست ضمانت سپریم کورٹ سے منظور، یوپی حکومت کر رہی تھی مخالفت

یوپی حکومت کی جانب سے صدیق کپن کی ضمانت کی یہ کہہ کر مخالفت کی گئی کہ ان کے انتہا پسند تنظیم پاپیولر فرنٹ آف انڈیا کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں، جس کا ایجنڈا ملک کے خلاف ہے

آزاد صحافی صدیق کپن
آزاد صحافی صدیق کپن
user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: کیرالہ کے صحافی صدیق کپن کی درخواست ضمانت سپریم کورٹ سے منظور کر لی گئی۔ اس معاملے پر چیف جسٹس یو یو للت، جسٹس ایس رویندر بھٹ اور جسٹس پی ایس نرسمہا کی بنچ نے سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے صدیق کپن کو تین دن کے اندر ٹرائل کورڈ کے سامنے پیش کرنے اور رہا کرنے کا حکم سنایا۔ یوپی حکومت کپن کی ضمانت کی یہ کہہ کر مخالفت کر رہی تھی کہ کپن کے انتہا پسند تنظیم پاپیولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) سے قریبی روابط ہیں، جس کا ایجنڈا ملک کے خلاف ہے۔

سپریم کورٹ نے صدیق کپن کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے حکم دیا کہ انہیں تین دن کے اندر ٹرائل کورٹ میں پیش کیا جائے اور ضمانت پر رہا کر دیا جائے۔ اس سے قبل عدالت نے 2 اگست کو وکلا کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ رکھا تھا۔

سپریم کورٹ نے 29 اگست کو صحافی صدیقی کپن کی درخواست ضمانت پر سماعت کرتے ہوئے یوپی حکومت سے 5 ستمبر تک جواب طلب کیا تھا۔ کپن کی جانب سے کپل سبل نے کہا کہ پی ایف آئی کالعدم یا دہشت گرد تنظیم نہیں ہے۔ وہ اکتوبر 2020 سے جیل میں قید ہیں ۔ وہ صحافی ہیں اور واقعے کی کوریج کرنے کے لئے ہاتھرس جا رہے تھے۔ ان کے خلاف 5000 صفحات کی چارج شیٹ داخل کی گئی ہے۔


صدیق کپن نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کرتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا، جس میں ان کی درخواست ضمانت منسوخ کر دی گئی تھی۔ الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے 3 اگست کو سنائے گئے فیصلہ میں صحافی صدیقی کپن کو راحت نہیں دی تھی۔

خیال رہے کہ صدیق کپن کو اکتوبر 2020 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ ایک دلت لڑکی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری اور قتل کی واردات کی رپورٹنگ کے لئے ہاتھرس جا رے تھے۔ ملیالم نیوز پورٹل ازیموکھم کے نامہ نگار اور کیرالہ یونین آف ورکنگ جرنلسٹس کی دہلی یونٹ کے سکریٹری صدیق کپن کو 3 دیگر افراد کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر الزام ہے کہ وہ امن و امان کو خراب کرنے ہاتھرس جا رہا تھے۔ کپن کے خلاف ’یو اے پی اے‘ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔