سبھی بین مذہبی شادیوں کو ’لو جہاد‘ نہیں کہا جا سکتا: کیرالہ ہائی کورٹ

Getty Images
Getty Images
user

قومی آواز بیورو

انیس حمید اور شروتی کی شادی کو ’لو جہاد‘ کا معاملہ بتانے والوں کو کیرالہ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے سے زبردست طمانچہ رسید کیا ہے۔ کیرالہ ہائی کورٹ نے ایک اہم فیصلے کی سماعت کے بعد کہا کہ سبھی بین مذہبی شادی کو ’لو جہاد‘ کی نظر سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے مسلم نوجوان انیس اور ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والی شروتی کے درمیان شادی کو برقرار رکھا۔

ہائی کورٹ کے جج جسٹس وی چتمبریش اور ستیش نینان کی ڈویژنل بنچ نے کنّور کی رہنے والی شروتی اور انیس حمید کی عرضی پر سماعت کے دوران کہا کہ ’’ہم ریاست میں ہر بین مذہبی شادی کو لو جہاد یا گھر واپسی کی نظر سے دیکھے جانے کے ٹرینڈ کو دیکھ کر خوفزدہ ہیں۔ ایسا تب کیا جا رہا ہے جب شوہر و بیوی کے درمیان شادی سے پہلے بے لوث محبت رہی ہو۔‘‘ اس کے ساتھ ہی ہائی کورٹ نے لتا سنگھ اور اتر پردیش حکومت معاملے میں 2004 میں آئے سپریم کورٹ کے فیصلے کا تذکرہ بھی کیا جس میں الگ الگ ذات اور الگ الگ مذاہب کی شادی کو فروغ دینے کی بات کہی گئی تھی۔

انیس اور شروتی کی شادی کو برقرار رکھتے ہوئے ہائی کورٹ نے متنبہ کیا کہ سبھی بین مذہبی شادی کو مذہبی نظریے سے نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ ہمیں اس طرح کی شادیوں کی وجہ سے مذہبی ہم آہنگی کو نہیں بگاڑنا چاہیے۔ عدالت نے کہا کہ اس معاملے میں خاتون کے گھر والوں نے اسے ’لو جہاد‘ قرار دیا ہے جو درست نہیں ہے۔

واضح رہے کہ شروتی نے 16 مئی کو ایک مسلم نوجوان کے ساتھ اپنا گھر چھوڑ دیا تھا۔ گھر والوں کی شکایت پر پولس نے انھیں ہریانہ کے سونی پت سے گرفتار کر لیا تھا۔ شروع میں ذیلی عدالت نے شروتی کو اس کے والدین کے ساتھ رہنے کی ہدایت دی تھی جس کے بعد اس کے گھر والوں نے اسے ایک یوگا سنٹر میں داخل کروایا تاکہ وہ مسلم نوجوان کو بھول جائے۔ اس کے بعد شروتی نے ہائی کورٹ میں الزام عائد کیا کہ یوگا سنٹر میں اس پر مظالم کیے گئے۔ اس معاملے کی عدالت میں سماعت کے دوران ہی شروتی اور انیس نے شادی کر لی۔ ڈویژنل بنچ نے شروتی کی اس ہمت کی تعریف کرتے ہوئے اس کی شادی کو برقرار رکھا اور اس کے لیے نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔