موت کا فرشتہ بن چکے کورونا کو روکنے میں ناکام کیجریوال کو استعفی دے دینا چاہیے... ظفرآغا
4 مہینے گزر جانے کے بعد بھی کیجریوال حکومت کو خبر نہیں ہے کہ دہلی کس سمت میں جا رہی ہے، مارچ کے بعد سے مریضوں کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے اور حکومت حالات کا مقابلہ کرنے کے بجائے لیپا پوتی میں مصروف ہے
دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے سب سے پہلے دہلی کے پرائیویٹ اسپتالوں پر بیان دیا کہ وہ مریضوں کو داخل نہیں کر رہے ہیں اور اس کے لئے کالا بازاری کا سہارا لے رہے ہیں۔ اور اب نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا نے اعلان کیا ہے کہ آنے والے وقت میں کورونا پازیٹو مریضوں کی تعداد ساڑھے پانچ لاکھ پہنچ جائے گی جس کے لئے 80000 ہزار بستروں (بیڈس) کی ضرورت ہوگی۔ یہ انتہائی تشویشناک صورت حال ہے۔ آخر اب تک دہلی حکومت کیا کر رہی تھی؟
مئی کے وسط میں ہی ماہرین نے انتباہ دیا تھا کہ جولائی شروع ہوتے ہوتے دہلی میں کورونا پازیٹو مریضوں کی تعداد 5 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے لیکن دہلی حکومت سوتی رہی۔ اور اب جبکہ کورونا کے مریضوں کی اموات کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور اسپتالوں نے انہیں داخل کرنے سے انکار کر دیا ہے تو دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ شور شرابہ کر رہے ہیں کہ انہیں کتنے بستر چاہئیں۔ خیال رہے کہ دہلی میں فروری ماہ میں ہی کورونا کے مریضوں کی تصدیق ہو گئی تھی۔
اب چار مہینے گزر جانے کے بعد بھی دہلی حکومت کو خبر نہیں ہے کہ دہلی کس سمت میں جا رہی ہے، مارچ ماہ کے بعد سے ہی یہاں مریضوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے لیکن ان حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے بجائے کیجریوال حکومت لیپا پوتی میں مصروف رہی اور اس سے پہلے تو وہ مریضوں کی تعداد میں ہی ہیرا پھیری کرتی رہی۔
کورونا وبا کے اتنے بھیانک حالات میں لوک نائک جے پرکاش نارائن اسپتال کے ڈائریکٹر کو معمولی وجہ کی بنیاد پر ہٹا دیا گیا۔ ان کا جرم صرف اتنا تھا کہ انہوں نے اسپتال میں کورونا کے مریضوں کی اصل تعداد عوامی کر دی تھی جو کہ دہلی حکومت کے اعداد سے میل نہیں کھاتی تھی۔ اور اب نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا نے تو ایک طرح سے ہاتھ کھڑے کر دیئے ہیں کہ ’ہمارے بس کی بات نہیں ہے‘۔ بلاشبہ دہلی حکومت 5 لاکھ سے زیادہ مریضوں کا بوچھ برداشت نہیں کر سکتی، تو پھر ایک مہینے سے بھی کم وقت میں 80000 بستر آئیں گے کہاں سے؟ اس کے علاوہ بڑی تعداد میں پی پی ای کٹس اور وینٹی لیٹرس بھی کیسے مہیا ہوں گے؟ صرف کھیل اسٹیڈیموں کو کووڈ اسپتال میں بدل دینے سے تو مسئلہ کا حل نہیں ہو جائے گا۔ سسودیا جی، نیند سے جاگیے، دہلی والوں کو اس سے راحت نہیں ملنے والی۔
دہلی کے موجودہ حالات بے حد نازک اور بدتر ہیں۔ مریض ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال میں داخل ہونے کے لئے ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ میں خود ایک ایسے مریض سے نجی طور پر واقف ہوں جس نے دہلی کے چار نجی اسپتالوں میں داخل ہونے کی کوشش کی، لیکن اسے کہیں جگہ نہیں مل سکی۔ آخر کار ایمس میں اسے داخل کیا گیا لیکن اس وقت تک کافی دیر ہو چکی تھی اور داخل ہونے کے دو گھنٹے بعد ہی اس نے دم توڑ دیا۔ ایسی کہانیاں دہلی کے ہر اسپتال کے باہر مل جائیں گی۔ لیکن سسودیا جی کو تبھی پتہ چلتا ہے جب میڈیا میں کوئی خبر دکھائی جاتی ہے۔
ظاہر ہے کہ جب فروری میں کورونا وائرس نے دہلی پر حملہ کیا تو کیجریوال حکومت نے ملک کی راجدھانی کو اس وبا سے بچانے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ اس کے برعکس دہلی حکومت نے اخباروں میں پورے پورے صفحہ کے اشتہارات دے کر میڈیا کو اپنی طرف کرنے کی کوششیں کیں۔ کیجریوال حکومت کے پاس میڈیا کو منانے کے لئے تو پیسہ اور وقت دونوں تھے لیکن وبا سے نمٹنے کے لئے کوئی ترکیب نہیں تھی، جبکہ دنیا جانتی ہے کہ یہ مہلک وائرس موت کا فرشتہ بن کر دروازے پر کھڑا ہے۔
اس بحران کے دور میں کیجریوال بری طرح فیل ہو چکے ہیں اور دہلی والوں کی جان پر بن آئی ہے۔ کیجریوال خود کو سب سے الگ طرح کا رہنما ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور عوامی زندگی میں اخلاقی قدروں کا ڈھنڈورہ پیٹتے ہیں۔ اسی اخلاقیات کے نام پر کیجریوال کو اب استعفی دے دینا چاہیے، کیونکہ انہوں نے اس بحران کے دور میں ووٹروں کا بھروسہ توڑ دیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔