کیجریوال حکومت نے 70 پرائیویٹ اسکولوں سے ’ڈی ٹی سی بس ایگریمنٹ‘ کیا ختم، کانگریس حملہ آور
دہلی کانگریس صدر چودھری انل کمار کا کہنا ہے کہ اروند کیجریوال حکومت نے ڈی ٹی سی کو بدعنوانی کے سبب پوری طرح بدحال کر دیا ہے، اور اسکولوں میں ڈی ٹی سی بس سروس بند کرنا حکومت کی ناکامی ظاہر کرتا ہے۔
دہلی پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر چودھری انل کمار کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی دہلی حکومت کے ذریعہ دہلی کے 70 پرائیویٹ اسکولوں میں لگی ڈی ٹی سی بسوں کے ایگریمنٹ کو فوری اثر سے ختم کرنے کے بعد ڈی ٹی سی کو ہونے والی آمدنی فوراً بند ہو جائے گی، جس سے ڈی ٹی سی کے خسارے میں مزید اضافہ ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ دہلی میں عام آدی پارٹی کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد دہلی ٹرانسپورٹیشن نظام پوری طرح سے تباہ ہو گیا ہے، کیجریوال حکومت نے ملک کی سب سے بڑی پبلک ٹرانسپورٹیشن سروس میں سے ایک ڈی ٹی سی کو تباہ کر دیا ہے، کیونکہ اپنی سات سالوں کی حکومت میں ڈی ٹی سی کے بیڑے میں ایک بھی بس نہیں جوڑی گئی ہے۔
چودھری انل کمار نے کہا کہ دہلی میں ٹرانسپورٹیشن نظام بہتر انداز میں چلانے کے لیے 11000 بسوں کی ضرورت ہے، جب کہ ڈی ٹی سی کے بیڑے میں صرف 3760 بسیں ہیں، جن میں سے بیشتر پرانی ہو چکی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر کلسٹر بسوں کو بھی سروس میں شامل کر لیا جائے تو ڈی ٹی سی کے بیڑے میں تقریباً 6750 بسیں ہی ہیں، جو دہلی کی ٹرانسپورٹیشن ضرورتوں کے حساب سے بہت کم ہیں۔
دہلی پردیش کانگریس کے صدر نے کہا کہ ڈی ٹی سی اسکولوں میں تقریباً 600 بسیں لگا کر ایک طے رقم حاصل کر رہا تھا، اور اب اسکولوں سے ڈی ٹی سی بسیں ہٹانے سے نہ صرف ڈی ٹی سی کی آمدنی میں کمی آئے گی، بلکہ حکومت اسکول کھولنے کے فیصلہ کے بعد کلاسز لگنے پر طلبا کی آمد و رفت میں بھی مسئلہ پیدا ہوگا، کیونکہ بیشتر اسکول لاک ڈاؤن کی وجہ سے دو سال سے بند پڑے تھے جو شاید اپنی بسیں خریدنے کی حالت میں نہیں ہیں۔
چودھری انل کمار نے کہا کہ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال، جو دیگر ریاستوں میں ’ترقی کا دہلی ماڈل‘ نافذ کرنے کا اعلان کرتے پھر رہے ہیں، انھیں یہ مان لینا چاہیے کہ بسوں کی زبردست کمی کے سبب ڈی ٹی سی کو اسکولوں کی سروس بند کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا، جو کیجریوال کو ان کی ناکامیوں کا آئینہ دکھاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ عآپ کی ناکام حکومت نے دور اندیشی کی کمی کے سبب دہلی میں کئی اداروں اور محکموں کو تباہ کر دیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔