کیجریوال حکومت کے پاس ’تعلیم‘ کا نہیں، بلکہ ’فراڈ‘ اور ’ماڈلنگ‘ کا ماڈل ہے: کانگریس

پارٹی کے ترجمان سندیپ دیکشت نے کچھ اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اگر کیجریوال کے تعلیم کے 'نام نہاد ماڈل' کو دوسری ریاستوں میں اپنایا گیا تو پورا نظام تعلیم تباہ و برباد ہو جائے گا!

کانگریس لیڈر سندیپ دیکشت
کانگریس لیڈر سندیپ دیکشت
user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: انڈین نیشنل کانگریس نے ہفتہ کے روز الزام عائد کیا ہے کہ دہلی میں اروند کیجریوال کی قیادت والی حکومت کے ذریعہ تعلیم کے جس ماڈل کی تشہیر کی جا رہی ہے، وہ درحقیقت فراڈ یعنی دھوکہ دہی اور ماڈلنگ کا ماڈل ہے۔ پارٹی کے ترجمان سندیپ دیکشت نے کچھ اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اگر کیجریوال کے تعلیم کے 'نام نہاد ماڈل' کو دوسری ریاستوں میں اپنایا گیا تو پورا نظام تعلیم تباہ و برباد ہو جائے گا!

کانگریس کے سینئر لیڈر سندیپ دکشت نے پارٹی ہیڈکوارٹر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا ’’عام آدمی پارٹی کے نام نہاد تعلیمی ماڈل کو بے نقاب کرنا ضروری ہے، تاکہ دوسری ریاستوں میں چلنے والا تعلیمی نظام ان کی دھوکہ دہی سے تباہ نہ ہو جائے۔ یہ تعلیم کا ماڈل نہیں ہے، بلکہ فراڈ کا ماڈل ہے، ماڈلنگ کا ماڈل ہے۔‘‘


سابق رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ دہلی میں نہ تو نئے اسکولوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور نہ ہی طلباء کی تعداد اور نہ ہی اساتذہ کی تقرری میں پہلے کی بہ نسبت اضافہ ہوا ہے۔ کچھ اسکولوں کو رنگ و روغن کرکے چمکانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن امتحان کے نتائج پہلے کے مقابلے بہت کم بڑھے ہیں، طلبہ کی تعداد نہیں بڑھ رہی ہے، تو دہلی حکومت پھرکس تعلیمی ماڈل کی بات کرتی ہے، یہ بڑا سوال ہے۔

انہوں نے کہا کہ 1998-99 میں دہلی حکومت کے 12ویں کے نتائج میں 64 فیصد بچے پاس ہوتے تھے، لیکن 2013-14 میں یہ بڑھ کر 90 فیصد ہو گئے تھے، یعنی 25 فیصد کے نتائج میں اضافہ ہوا، لیکن اس وقت کسی ماڈل کی بات نہیں ہوئی۔ اس کے بعد جب نتیجوں میں 7 فیصد اضافہ ہوا تو اسے ماڈل کے طور پر عام کیا گیا۔


انہوں نے سوال کیا کہ جب رزلٹ 25 فیصد بڑھتا ہے تو کوئی ماڈل نہیں ہوتا ہے اور جب نتیجہ 7 فیصد بڑھتے ہیں تو اس ٹیسٹ کے نتیجے کو ماڈل کہا جانے لگتا ہے۔ اسی طرح 10ویں کے امتحان کے نتائج 2010-11 میں بہت اچھے رہے، لیکن اس وقت کی کانگریس حکومت نے اس نتیجہ کو تعلیم کا ماڈل قرار نہیں دیا۔

(یو این آئی ان پٹ کے ساتھ)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔