کٹھوعہ ریپ معاملہ: مظفرنگر میں شان سے رہ رہا تھا ایک ’درندہ‘!
جموں و کشمیر کرائم برانچ ٹیم نے آصفہ کے اغوا کے بعد ایک مندر میں ہوئی عصمت دری اور قتل میں ملوث رہے وشال جگوترا کو 17 مارچ کو ميرانپور سے گرفتار کیا تھا۔
جموں و کشمیر کے کٹھوعہ میں 8 سالہ معصوم بچی کے قتل اور آبروریزی نے پورے ملک کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس واردات میں پولس کی کرائم برانچ نے چارج شیٹ داخل کر دی ہے جس میں 8 افراد کو ملزم بنایا گیا ہے۔ ان مبینہ درندوں میں سے ایک اتر پردیش کے ضلع مظفر نگر میں رہ رہا تھا۔
قصبہ میرانپور میں واقع آکانکشا کالج میں زیر تعلیم ملزم وشال جنگوترا واردات کے بعد سے یہاں رہ رہا تھا اور یہاں کے ایک معروف مندر کی ایک تصویر سے وہ پکڑ میں آیا۔ حالانکہ میرانپور قصبہ ایک امن پسند علاقہ ہے اور بھائی چارے کے لئے جانا جاتا ہے۔ وشال جنگوترا یہاں چند مہینے سے قیام پزیر تھا اور گزشتہ دنوں کالج کی تعطیل ہونے کے باوجود جموں واقع اپنے گھر نہیں گیا تھا۔
کٹھوعہ واقعہ جنوری ماہ میں پیش آیا تھا۔ وشال جنگوتر چونکہ اس واردات میں ملوث تھا اس لئے ڈرو خوف کے سبب اپنا زیادہ تر وقت کمرے کے اندر ہی گزارتا تھا۔ وشال (23)کو اس معصوم بچی کے اغوا کرنے کے بعد اس کے دوست نے فون کر کے بلایا تھا۔ کٹھوعہ کرائم برانچ کے انسپکٹر کیول کشور کے مطابق ’’کرائم برانچ نے جو چارج شیٹ عدالت میں پیش کی ہے ان ملزمان میں وشال جنگوترا کا نام بھی شامل ہے۔ واردات کے دن اس کی لوکیشن جائے وقوعہ سے میل کھاتی ہے اور وہ بچی کے قتل میں بھی شامل تھا۔‘‘
وشال جنگوترا نے میرانپور کے معروف’ببرے والی ماتا کے مندر‘ میں لی گئی اپنی سیلفی فیس بک پر پوسٹ کر دی جس کے سبب جموں و کشمیر کی پولس اس تک پہنچ گئی اور اسے گرفتار کر لیا۔ میرانپور میں وہ تعلیم حاصل کر رہا ہے یہ بات پولس کو معلوم نہیں تھی۔
میرانپور کے ایک مقامی صحافی راہل شرما کی مدد سے وشال کو تلاش کیاگیا۔ سماجی کارکن سمن شرما کے بیٹے روی شرما نے ’قومی آواز‘ سے گفتگو کے دوران بتایا کہ ’’تین مہینے پہلے ہی وہ (وشال جنگوترا) یہاں آیا تھااور زیادہ تروقت اپنے کمرے میں ہی گزارتا تھا۔ وہ باہر کبھی کبھار ہی نکلتا تھا۔ ‘‘
غور طلب ہے کہ 12 جنوری کو اس معصوم بچی کی رپورٹ درج ہوئی تھی اور جو کہ تین مہینے پہلے کی بات ہے۔ وشال جنگوترا کی گرفتاری میں تعاون دینے والے راہل شرما کا کہنا ہے ’’جموں کرائم برانچ کے لئے 30 ہزار کی آبادی والے قصبے میں وشال کو تلاش کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ مقامی سطح پر اپنی واقفیت کا میں نے استعمال کیا۔ وشال نے انسانیت کو شرمسار کرنے والا کام کیا تھا۔ میں نے ملک کے تئیں اپنے فرض کو انجام دیا ہے۔ اسے سخت سزا ملنی چاہئے۔‘‘
میرانپور ہندومسلم مخلوط آبادی والا قصبہ ہے جہاں ہندو مسلم ایک زمانے سے میل و محبت سے رہتے آئے ہیں۔ اس گرفتاری نے یہاں کے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے اور بحث و مباحثہ کا دور جاری ہے۔ چہار سو اس غیر انسانی فعل کی مذمت کی جا رہی ہے اور وشال سمیت تمام ملزمان کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
موبائل کی دکان چلانے والے ڈیڈو رستوگی کہتے ہیں ’’اس درندے کو پھانسی ہونی چاہئے۔ اس نے انسانیت کو شرمسار کیا ہے۔‘‘
کٹھوعہ واقعہ پر ملک بھر میں تو غصہ ہے ہی دنیا بھر سے بھی اس پر رد عمل ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری اینٹونیو گوٹریس نے بھی بیان جاری کر کے مجرم کو جلد سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
عصمت دری اور قتل میں ملوث تمام ملزمان گرفتار کر لئے گئے ہیں۔ چارج شیٹ کے مطابق 8 سالہ معصوم بچی کو اغوا کر کے ایک مندر میں قید رکھا گیا تھا اور واردات کا سرغنہ سابق سرکاری افسر سانجی رام ہے۔ جموں و کشمیر پولس نے اسے فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کی بنا پر انجام دیا گیا جرم قرار دیا ہے۔ دراصل سانجی رام مسلم گوجر طبقہ (جنہیں بکروال بھی کہا جاتا ہے) میں خوف پیدا کرنا چاہ رہا تھا تاکہ وہ علاقہ چھوڑ کر چلے جائیں، اس کے لئے اس نے یہ سازش رچی تھی۔
متاثرہ بچی کے والد نے میڈیا کو بتایا کہ وہ 8 دن تک بچی کو ہر جگہ تلاش کرتے رہے لیکن مندر میں نہیں گئے کیوں کہ مندر ایک مقدس مقام ہوتا ہے۔ کرائم برانچ نےجو چارج شیٹ عدالت میں داخل کی ہے اس کے مطابق مندر میں عصمت دری ہوئی ہے اس بات کی تصدیق کی ہے۔ وشال واردات کے سرغنہ سانجی رام کا بیٹا ہے۔
بجنور -میرانپور شاہراہ پر واقع معروف ببرے والی ماتا مندر پر ہر سال مارچ کے مہینے میں ایک میلہ لگتا ہے۔ اسی میلے کے دوران وشال نے مندر کی ایک سیلفی لے کر فیس بک پر اپ لوڈ کر دی تھی۔ مندر کے نزدیک کھیتی باڑی کرنے والے راج کمار کا کہنا ہے ’’یہ سب ببرے والی ماتا کی رحمت ہے کہ اس نے اپنے دربار سے اتنا بڑا درندہ پکڑوا دیا۔‘‘
یہیں نزدیک میں آکانکشا کالج واقع ہے جہاں سے وشال بی ایس سی (ایگریکلچر) میں زیر تعلیم ہے۔ پولس کی پوچھ گچھ میں بھی وشال نے اس بات کا اعترا ف کیا ہے۔ تین مہینے سے کمرہ لے کر یہاں رہنے کی بات سے کالج پر بھی کئی سوال اٹھ رہے ہیں کہ آیا پولس سے بچنے کے لئے وشال نے یہاں داخلہ تونہیں لیا تھا۔ تاہم کالج کے پرنسپل منجیت سنگھ کا کہنا ہے ’’کوئی بھی طالب علم کہیں سے درخواست کر سکتا ہے۔ اسکول کا انتخاب یونیورسٹی انتظامیہ کرتی ہے۔ اسی عمل کے تحت اس کا داخلہ ہوا تھا اور اس کا رویہ بھی غیر معمولی نہیں تھا۔‘‘ آکانکشا کالج سی سی ایس یونیورسٹی کے تحت آتا ہے ۔ واضح رہے جموں و کشمیر کی کرائم برانچ اس کالج کے کردار کو بھی مشکوک مان کر چل رہی ہے۔
وشال نے فرسٹ سیمسٹر کے امتحان کھتولی کے ایک کالج سے دیئے تھے۔ جموں و کشمیر پولس کی ٹیم جب وہاں پہنچی تو معلوم ہوا کہ وشال کی جگہ کسی اور نےامتحان دیا ہے۔ دراصل وشال نے پولس کو یہ بیان دیا ہے کہ واقعہ کے وقت وہ کھتولی میں امتحان دے رہا تھا۔ جموں کرائم برانچ نے کالج کے سی سی ٹی وی کیمرہ کی ریکارڈنگ حاصل کر لی ہے ۔
آکانکشا کالج کے سابق طالب علم وکاس کمار کا کہنا ہے کہ ’’آکانکشا کالج کی شبیہ اچھی نہیں ہے ورنہ جموں کا لڑکا یہاں آکر تعلیم کیوں حاصل کرتا! یہاں ایڈجسٹمنٹ کا کھیل چلتا ہے۔ فی لحال کالج کی جانچ کی جا رہی ہے۔
معاملہ کی تفتیش کرنے والے نوید پیرزادہ کا کہنا ہے، ’’پولس نے پختہ ثبوتوں کے ساتھ چارج شیٹ عدالت میں داخل کی ہے۔ سی سی ٹی وی کیمرہ کی ریکارڈنگ بھی فارینسک جانچ کے لئے بھیج دی گئی ہے۔مجرم بچ نہیں پائیں گے۔ ‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔