کشمیر: پبلک ٹرانسپورٹ سے جڑے افراد بے تحاشہ مالی نقصان سے دوچار

محمد قاسم نامی ایک ٹاٹا سومو گاڑی کے مالک اور ڈرائیور کا کہنا ہے کہ قریب ڈیڑھ ماہ سے کام پر نہ جانے کی وجہ سے بنک قرضے میں اتنا اضافہ ہوا ہے کہ اس کی ادائیگی میرے لئے مشکل بن گئی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

سری نگر: وادی کشمیر میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے پبلک ٹرانسپورٹ لگاتار بند رہنے سے اس سے جڑے افراد کو بے تحاشہ مالی نقصان سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے جس کے باعث کئی مالکان ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ وادی میں پانچ اگست جس دن مرکزی حکومت نے جموں وکشمیر کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 370 منسوخ کی اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا، سے سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ مسلسل معطل ہے تاہم نجی گاڑیوں کی نقل وحمل سڑکوں پر جاری ہے۔

محمد قاسم نامی ایک ٹاٹا سومو گاڑی کے مالک اور ڈرائیور نے یو این آئی اردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ قریب ڈیڑھ ماہ سے کام پر نہ جانے کی وجہ سے بنک قرضے میں اتنا اضافہ ہوا ہے کہ اس کی ادائیگی میرے لئے مشکل بن گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 'میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے گھر میں بیٹھا ہوں اور سومو بھی گھر کے صحن میں کھڑی ہے اس مدت کے دوران ایک پیسہ بھی نہیں کمایا لیکن دوسری طرف بنک کا قرضہ مسلسل بڑھ رہا ہے، وہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ اب میرے لئے اس کی ادائیگی ناممکن ہے'۔


تصدق احمد نامی ایک سومو ڈرائیور کا کہنا ہے کہ میں نہ صرف بے روزگار ہوگیا ہوں بلکہ اب اپنے والدین پر غیر ضروری بوجھ بھی بن گیا ہوں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ 'میں ماہانہ تنخواہ پر سومو چلا کر روزی روٹی کماتا تھا لیکن پانچ اگست سے پبلک ٹرانسپورٹ بند ہے اور میں بھی تب سے لگاتار گھر میں بیٹھا ہوا ہوں، مجھے اور کوئی دوسرا کام کرنا نہیں آتا ہے لہٰذا میں اب اپنے گھر والوں پر بھی غیر ضروری بوجھ بن گیا ہوں'۔

محمد عباس نامی ایک گاڑی ڈرائیور نے کہا کہ میں گاڑی چلا کر اپنے اہل وعیال کا پیٹ پالتا تھا لیکن اب گھر میں بیٹھا ہوں اور نوبت فاقوں کی آگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 'میں چھوٹی مسافر گاڑی چلا کر اپنے اہل وعیال جس میں میرے عمر رسیدہ والدین اور دو چھوٹے بچے شامل ہیں، کا پیٹ پالتا تھا لیکن اب چونکہ پبلک ٹرانسپورٹ لگاتار بند ہے لہٰذا میرے اہل وعیال کو فاقے لگیں گے کیونکہ آمدنی کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے اور گاڑی کا قرضہ پہلے ہی بھاری ہے، مزید قرضہ اٹھانے کی سکت ہی نہیں ہے'۔ مظفر احمد نامی مسافر گاڑیوں کے ایک ایجنٹ نے کہا کہ میں گاڑیوں کے ایجنٹ کا کام کرکے روزی روٹی کی سبیل کرتا تھا لیکن ٹرانسپورٹ بند ہونے سے میرا روزگار بھی بند ہوگیا ہے۔


ان کا کہنا ہے کہ 'میں ایک بس اڈے میں ایجنٹ کا کام کرکے روزی روٹی کماتا تھا اور اہل وعیال کو پالتا تھا لیکن اب چونکہ پبلک ٹرانسپورٹ لگاتار بند ہے جس کی وجہ سے میرا روزگار بھی بند ہوگیا ہے'۔ بتادیں کہ وادی میں پانچ اگست سے پبلک ٹرانسپورٹ لگاتار سڑکوں سے غائب ہے جس کے باعث پبلک ٹرانسپورٹ مالکان گوناگوں پریشانیوں کے بھنور میں پھنس گئے ہیں۔

انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ وادی کی صورتحال تیزی کے ساتھ بہتری کی جانب گامزن ہے تاہم اس کے برعکس اسٹیٹ روڑ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی بسیں بھی سڑکوں سے غائب ہیں۔ ان میں سے کچھ درجن بسوں کو سول سکریٹریٹ ملازمین اور سری نگر کے دو تین اسپتالوں کے عملے کو لانے اور لے جانے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ ایس آر ٹی سی کی کوئی بھی گاڑی عام شہریوں کے لئے دستیاب نہیں ہے جس کی وجہ سے انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔