کشمیری سیب خریدنے کے لیے تاجروں کی بھیڑ نظر آتی تھی، لیکن اِس بار...
کشمیر کے میوہ باغ مالکان ریاست میں پیدا حالات کے باعث کافی پریشان ہیں۔ ان کے لیے مشکل یہ ہے کہ میوہ بالکل تیار ہے لیکن تاجروں کی آمد نہیں ہو پا رہی۔ باغ مالکان پر کروڑوں روپے نقصان کا خطرہ لاحق ہے۔
سری نگر: وادی کشمیر میں جاری نامساعد حالات سے جہاں تمام طبقوں سے وابستہ لوگ گوناں گوں مشکلات سے دوچار ہیں وہیں میوہ باغ مالکان کی پریشانیوں میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے کیونکہ میوہ تیار ہے لیکن بیوپاری نایاب ہیں۔ وادی میں مختلف اقسام کے میووں خاص کر سیب کے باغات ہر سو پھیلے ہوئے ہیں اور یہ ایک بہت بڑی صنعت ہے لیکن امسال میوہ خریدنے والے بیوپاری نایاب ہیں جس کے باعث مالکان باغات کو کروڑوں روپئے کا نقصان ہونے کے خطرات لاحق ہیں۔
اعجاز احمد نامی ایک باغ مالک نے یو این آئی اردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ امسال ناساز گار حالات کے چلتے کوئی بیوپاری میرے میوہ باغ کو خریدنے نہیں آرہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 'میرا پچیس کنال اراضی پر مشتمل مختلف قسم کے سیبوں کا باغ ہے، ہر سال میرے باغ کو خریدنے کے لئے بیوپاریوں کا تانتا بندھا رہتا تھا یہاں تک کہ دلی کے بیوپاری بھی میرے باغ کو خریدنے کے لئے آتے تھے لیکن امسال ناسازگار حالات کے باعث اب تک کوئی بھی بیوپاری باغ کو خریدنے نہیں آیا ہے جس کے باعث میں بہت ہی پریشان ہوں'۔ اعجاز نے کہا کہ اگرچہ حکومت نے باغ مالکان سے سیب خریدنے کا اعلان کیا ہے لیکن اس کے بارے میں مکمل معلومات نہیں ہیں۔
زاہد حسین نامی ایک باغ مالک نے کہا کہ سال گزشتہ کم سے کم پچاس بیوپاری میرا باغ خریدنے آئے لیکن امسال ایک بھی نہیں آیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 'میرے سیبوں کے باغ کو خریدنے کے لئے سال گزشتہ کم سے کم پچاس بیوپاری آئے، امسال میوہ سال گزشتہ سے بہتر ہونے کے باوجود ایک بھی بیوپاری نہیں آیا، گھر میں ایسے وسائل نہیں ہیں کہ خود ہی میوہ اتار کر باہر لے جائیں، مجھے لگتا ہے کہ امسال میوہ درختوں پر ہی رہ جائے گا'۔
حاجی محمد قاسم نامی ایک بیوپاری نے کہا کہ امسال حالات کے چلتے میں باغات خریدنے کی جرات ہی نہیں کر پارہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ 'میں ہر سال کم سے کم نصف درجن باغات خریدا کرتا تھا لیکن امسال نامساعد حالات کے باعث میں ایک باغ خریدنے کی بھی جرأت نہیں کرپارہا ہوں کیونکہ میوہ کو منڈیوں تک پہنچانا مشکل کام ہے'۔
غلام محی الدین نامی ایک میوہ بیوپاری نے کہا کہ امسال میوہ باغ خریدنا ایک ایسی لاٹری ہے جس میں خسارہ طے ہے۔ انہوں نے کہا کہ 'میں ہر سال میوہ باغات خریدتا تھا لیکن امسال میوہ باغ خریدنا ایک ایسی لاٹری ہے جس میں خسارہ طے ہے کیونکہ یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ آیا میوہ منڈی تک پہنچ بھی پائے گا یا نہیں'۔
غلام محی الدین نے مزید کہا کہ میرے ایک دوست کے دو ناشپاتیوں کے ٹرک تباہ ہوئے کیونکہ وہ وقت پر منڈی نہیں پہنچ پائے جس کے بعد میں نے امسال باغوں کو خریدنے کے فیصلے کو ترک کیا۔ قابل ذکر ہے کہ وادی کشمیر میں گزشتہ زائد از ڈیڑھ ماہ سے جاری نامساعد حالات کے باعث نہ صرف میوہ باغات کے مالکان پریشان ہیں بلکہ دیگر شعبوں سے وابستہ لوگ بھی گوناں گوں مشکلات سے دوچار ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 23 Sep 2019, 6:10 PM