کشمیر: غیر یقینی صورتحال کے بیچ دسویں جماعت کے امتحانات شروع
وادی کشمیر میں قریب تین ماہ سے جاری غیر یقینی صورتحال کے بیچ منگل کے روز جموں کشمیر سٹیٹ بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کی طرف سے دسویں جماعت کے امتحانات شروع ہوئے
سری نگر: وادی کشمیر میں قریب تین ماہ سے جاری غیر یقینی صورتحال کے بیچ منگل کے روز جموں کشمیر سٹیٹ بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کی طرف سے دسویں جماعت کے امتحانات شروع ہوئے۔ تاہم سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی کی وجہ سے بیشتر طلباء کو اپنے امتحانی مراکز تک پیدل سفر کرنا پڑا۔ وادی میں بورڈ امتحانات ایک ایسے وقت شروع ہوئے ہیں جب یورپی پارلیمان کا ایک وفد کشمیر کے دو روزہ دورے پر ہے۔ مذکورہ وفد نے پیر کے روز قومی راجدھانی نئی دہلی میں وزیر اعظم نریندر مودی اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں۔
ذرائع نے بتایا کہ وادی میں قریب 60 ہزار طلبا دسویں جماعت کے امتحانات میں حصہ لے رہے ہیں جن کے لئے قریب چار ہزار امتحانی مراکز قائم کئے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کئی حساس علاقوں میں امتحانی مراکز کو محفوظ جگہوں پر منتقل کیا گیا ہے۔ بتادیں کہ وادی میں پانچ اگست سے تعلیمی اداروں میں تعلیمی سرگرمیاں معطل ہیں اگرچہ انتظامیہ نے کئی بار تعلیمی ادارے کھولنے کے اعلانات کئے لیکن درس وتدریس کا سلسلہ بحال نہیں ہوسکا۔
سرکاری ذرائع نے بتایا کہ وادی میں منگل کے روز بورڑ آف اسکول ایجوکیشن کی طرف سے لئے جانے والے دسویں جماعت کے امتحانات حسب شیڈول شروع ہوئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ متعلقہ محکمہ نے امتحانات کے احسن انعقاد کے لئے تمام ضروری تیاریوں کو حتمی شکل دی تھی۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ ڈپٹی کمشنروں نے اے ڈی سیز کی سربراہی میں کنٹرول روم قائم کئے ہیں تاکہ کسی بھی ایمرجنسی کے ساتھ موثر طور نمٹا جاسکے۔ اس کے علاوہ بورڈ آف سکول ایجوکیشن اور محکمہ تعلیم کی جانب سے تشکیل دیئے گئے چیکنگ سکارڈ بھی امتحانات کے احسن انعقاد کو یقینی بنائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امتحانی مراکز کے گردو نواح میں دفعہ 144 نافذ کیا گیا ہے اور ہر امتحانی مرکز پر ایک مجسٹریٹ تعینات کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ہر امتحانی مرکز کے ارد گرد پولیس کی مطلوبہ نفری تعینات کی گئی ہے۔ طلبا کے ایک گروپ نے یو این آئی اردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے نصاب کا نصف کا نصف حصہ بھی مکمل نہیں کیا ہے جس کے باعث ہمیں پریشانیاں لاحق ہیں۔
انہوں نے کہا: 'ہم نے نصاب کا نصف حصہ بھی مکمل نہیں کیا ہے، تین ماہ سے تعلیمی سرگرمیاں بند ہیں، ٹیویشن سینٹر بھی بند ہیں ہم پورے نصاب کا امتحان دینے لئے تیار ہی نہیں ہیں'۔ ایک طالب علم نے کہا کہ ہمیں صرف یہ بتایا گیا کہ امتحان 29 تاریخ سے ہونے والے ہیں یہ نہیں بتایا گیا کہ آیا امتحان کس طرح لئے جائیں گے۔
ان کہا کہنا تھا: 'بورڈ نے صرف ڈیٹ شیٹ نکالا جس سے ہمیں معلوم ہوا کہ امتحانات 29 تاریخ سے ہونے والے ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ آیا امتحانات کس طرح ہونے والے ہیں ہمارے سلیبس میں کسی قسم کی کوئی تخفیف ہوگی یا نہیں'۔ ایک طالبہ نے کہا کہ ہم نے سلیبس کی کٹوتی کے لئے احتجاج بھی کیا اور متعلقین کو بار بار اس کی طرف توجہ مبذول کرنے کی گذارش بھی کی لیکن ہماری فریاد کسی نے نہیں سنی۔ طلبا کا کہنا ہے کہ انتظامیہ نے صرف یہاں نارملسی دکھانے کے لئے ہمارے امتحانات منعقد کئے ورنہ وہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ ہم موجودہ حالات کے باعث مکمل تیاری نہیں کر پائے۔
ایک طالب علم نے کہا کہ موجودہ حالات کی وجہ سے میں اپنے امتحانی سینٹر پر قریب ایک گھنٹہ دیر سے پہنچا۔ انہوں نے کہا: 'میں ایک دور افتادہ علاقے کا رہنا والا ہوں میرا امتحانی سینٹر میری جائے رہائش سے قریب پندرہ کلو میٹر دوری پر واقع ہے گھر میں نجی ٹرانسپورٹ کا کوئی ذریعہ نہیں ہے مجھے پیدل سفر کرنا پڑا، میں گھر سے سویرے ہی نکلا لیکن پھر بھی میں پہلے ہی دن قریب ایک گھنٹہ دیر سے پہنچا'۔
موصوف طالب علم نے کہا کہ امیر گھرانوں سے تعلق رکھنے والے طلبا تو امتحانی مراکز پر وقت پر پہنچتے ہیں لیکن غریب بچوں کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی مشکلات کا باعث ہے۔ دور افتاہ علاقوں کے طلاب نے انتطامیہ سے اپیل کی کہ وہ طلبا کے لئے امتحانی سینٹروں تک آنے جانے کے لئے ٹرانسپورٹ کا بندوبست کرے۔ دریں اثنا کشمیر یونیورسٹی نے بھی امتحانوں کا سلسلہ تیز کیا ہے۔ یونیورسٹی میں مختلف بیچلر کورسز میں زیر تعلیم طلبا کا کہنا ہے کہ امتحانات وقت پر نہ ہونے کی وجہ سے ان کے کورسز طوالت کا شکار ہورہے ہیں جس سے بچوں کا وقت ضائع ہورہا ہے۔
طلبا نے کہا کہ تین برسوں میں مکمل ہونے والے کورسز پانچ برس بیت جانے کے باوجود بھی مکمل ہی نہیں ہورہے ہیں جس کی وجہ سے وادی کے طلبا کو بعد میں گوناگوں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ غلام احمد نامی ایک والد نے یو این آئی اردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ کئی برس بیت جانے کے باوجود بھی میرے بیٹے کی بیچلرس ڈگری مکمل نہیں ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا: 'میرے بیٹے نے چند برس پہلے بیچلرس ڈگری میں داخلہ لیا، میں سوچ رہا تھا کہ اس کو گریجویشن مکمل کرنے کے بعد بیرون ریاست کسی اچھی یونیورسٹی میں پڑھاؤں لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ یہاں اس کی گریجویشن ہی مکمل نہیں ہوپارہی ہے مجھے لگتا ہے کہ شاید میرا خواب شرمندہ تعبیر ہی نہیں ہوگا’۔
قابل ذکر ہے کہ وادی میں پانچ اگست سے جاری غیر یقینی صورتحال سے سب سے زیادہ نقصان تعلیمی شعبے کو اٹھانا پڑا کیونکہ یہاں درس وتدریس کا عمل برابر معطل رہا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔