کشمیر: صرف BSNL کی ایس ایم ایس سروس بحال، نجی کمپنیوں کے صارفین میں غصے کی لہر

نوجوانوں کے ایک گروپ نے یو این آئی اردو کو بتایا کہ سال گزشتہ کے دوران کشمیریوں سے بہت جھوٹ بولا گیا لیکن 2020 کے پہلے ہی دن کا آغاز جھوٹ سے ہوا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

سری نگر: وادی کشمیر میں یونین ٹریٹری انتظامیہ کے اعلان کے برعکس صرف سرکاری مواصلاتی کمپنی بھارت سنچار نگم لمیٹڈ (بی ایس این ایل) کے پوسٹ پیڈ سم کارڈوں میں ہی ایس ایم ایس سہولیت بحال ہوئیں ہیں جبکہ نجی مواصلاتی کمپنیوں جیسے ایئرٹل اور جیو صارفین کو خدمات کی بحالی کا انتظار ہے۔

قریب 80 لاکھ کی آبادی والی وادی میں موبائل فون صارفین کی تعداد کم از کم 70 لاکھ ہے جن میں سے 40 لاکھ پوسٹ پیڈ اور 30 لاکھ پری پیڈ کنکشن ہیں۔ جن پوسٹ پیڈ بی ایس این ایل کنکشنز پر ایس ایم ایس خدمات بحال کی گئی ہے ان کی تعداد وادی کے کُل صارفین کی پانچ فیصد سے کم بتائی جارہی ہے۔


جموں وکشمیر یونین ٹریٹری کے ترجمان روہت کنسل نے منگل کی شام جموں میں منعقدہ ایک پر ہجوم پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ وادی میں پانچ اگست سے بند ایس ایم ایس سروس اور تمام سرکاری اسپتالوں میں براڈ بینڈ انٹرنیٹ خدمات منگل اور بدھ کی درمیانی رات کو بحال کیا جائے گا۔

اس اعلان کے ساتھ ہی اہلیان کشمیر میں امید پیدا ہوئی تھی کہ وادی میں تمام مواصلاتی کمپنیوں کے سم کارڈوں میں ایس ایم ایس سروس نصف شب کو بحال ہوگئی لیکن یہ امید بھر نہیں آئی اور بدھ کی صبح صرف بی ایس این ایل صارفین جن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے ایس ایم ایس موصول یا بھیج پائے۔


اہلیان

وادی میں ایس ایم ایس خدمات کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ خدمات بشمول لیز لائن و براڈ بینڈ کی معطلی جاری ہے۔ تمام میڈیا و نجی دفاتر کے انٹرنیٹ کنکشنز بند ہیں۔ اگرچہ سرکاری اسپتالوں میں بھی انٹرنیٹ خدمات کو معطل رکھا گیا تھا تاہم گزشتہ رات سرکاری اعلان کے بعد چند بڑے اسپتالوں میں براڈ بینڈ انٹرنیٹ خدمات بحال کردی گئی ہیں۔ نوجوانوں کے ایک گروپ نے یو این آئی اردو کو بتایا کہ سال گزشتہ کے دوران کشمیریوں سے بہت جھوٹ بولا گیا لیکن 2020 کے پہلے ہی دن کا آغاز جھوٹ سے ہوا۔

انہوں نے کہا کہ 'آپ آج کے اخبارات اٹھاکر دیکھ لیں۔ وہاں لکھا ہے کہ کشمیر میں ایس ایم ایس سروس بحال ہوگئی ہے۔ لیکن ہمارے موبائل نمبرات پر ایس ایم ایس آتے ہیں نہ ان کے ذریعے دوسرے نمبرات پر ایس ایم ایس جاتے ہیں۔ یہاں ہر ایک کے پاس بی ایس این ایل سم کارڈ نہیں ہے۔ جن کے پاس ہیں وہ بیوروکریٹ ہیں یا اعلیٰ سرکاری افسر'۔


قبل ازیں یو ٹی انتظامیہ نے 10 دسمبر 2019 کو وادی کشمیر میں مشین (کمپیوٹر) سے جنریٹ ہونے والے پیغامات یعنی او ٹی پی خدمات بحال کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن تب بھی یہ سہولیت صرف بی ایس این ایل کے سم کارڈوں میں ہی بحال ہوئی تھی جس پر نجی کمپنیوں کے سم کارڈ استعمال کرنے والے صارفین نے ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔

ادھر طلبا اور تاجروں کے مطابق انہیں سرکار کی طرف سے کھولے گئے انٹرنیٹ سنٹروں میں فارموں کے ادخال اور ٹیکس کی ادائیگی کے دوران موبائل فون نمبرات پر او ٹی پی موصول نہ ہونے کی وجہ سے سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔


طلبا کے ایک گروپ نے کہا کہ ہم اب فارموں کے بھرنے کے لئے او ٹی پی نمبر کے لئے بیرون ریاست مقیم اپنے رشتہ داروں یا دوستوں کے فون نمبر دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 'اب ہم او ٹی پی نمبر کے لئے بیرون ریاست مقیم اپنے رشتہ داروں یا دوستوں کے فون نمبر دیتے ہیں لیکن اس سے یہ مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے کہ بعد میں ان ہی نمبرات پر مزید معلومات یا جانکاریاں آرہی ہیں'۔

وادی کشمیر میں سال 2019 میں دنیا کی طویل ترین اور ریکارڈ ساز انٹرنیٹ قدغن کا ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم ہوا ہے جس کے باعث یوں تو جملہ شعبہ ہائے حیات متاثر ہوئے لیکن صحافیوں، طلبا اور تاجروں کو جن متنوع مسائل و مشکلات سے دوچار ہونا پڑا وہ ان کے تصور سے پرے بھی ہیں اور اپنی جگہ فقیدالمثال بھی ہیں۔


وادی کشمیر میں 4 اور 5 اگست کی درمیانی رات کو تمام طرح کی انٹرنیٹ سہولیات معطل کی گئیں جو ہنوز معطل ہی ہیں اگرچہ یہاں براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروس کی بحالی کے بارے میں کئی بار افواہیں بھی گرم ہوئیں اور ارباب اقتدار نے بھی کئی بار براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروس مرحلہ وار طریقے سے بحال کرنے کے وعدے بھی کیے لیکن فی الوقت زمینی سطح پر صورتحال جوں کی توں ہی ہے۔

وادی میں جاری انٹرنیٹ سہولیات پر پابندی نے جہاں دنیا میں انٹرنیٹ پر قدغن کا ایک نیا ریکارڈ قائم کرکے دنیا کی طویل ترین انٹرنیٹ قدغن کا اعزاز حاصل کیا وہیں اہلیان وادی کو مشکلات و مسائل کے ایک ایسے اتھاہ بھنور میں دھکیل دیا جس سے باہر آنے کی انہیں کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے اور نہ ہی کوئی امید بر آرہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔