کشمیر میں مواصلاتی پابندی، اہلیان کشمیر پر قہر سامانیوں کی داستان
دو ماہ سے موبائل فون اور انٹرنیٹ خدمات پر پابندی، جو ہنوز جاری ہے، کے دوران اہلیان وادی کو جن متنوع مصائب و گوناگوں مشکلات سے دوچار ہونا پڑا ان مصائب ومشکلات سے نصف صدی قبل کے لوگ بھی دوچار نہیں تھے
سری نگر: وادی کشمیر میں گزشتہ زائد از دو ماہ سے موبائل فون اور انٹرنیٹ خدمات پر پابندی، جو ہنوز جاری ہے، کے دوران اہلیان وادی کو جن متنوع مصائب و گوناگوں مشکلات سے دوچار ہونا پڑا ان مصائب ومشکلات سے نصف صدی قبل کے لوگ بھی دوچار نہیں تھے۔
بتادیں کہ مرکزی حکومت کی طرف سے پانچ اگست کو جموں کشمیر کو حاصل خصوصی اختیارات کی منسوخی اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنے کے اعلان کے ایک دن قبل ہی وادی میں تمام تر مواصلاتی نظام کو معطل کیا گیا جو ہنوز جاری ہے تاہم بعد ازاں لینڈ لائن سروس کو مرحلہ وار بحال کیا گیا۔ انتظامیہ نے لوگوں کی سہولیت کے لئے وادی کے بعض حصوں میں اگست کی 17 تاریخ کو لینڈ لائن سروس بحال کی تھی اور بعد ازاں 4 ستمبر تک تمام لینڈ لائنوں کو بحال کیا گیا تھا جن کی تعداد 50 ہزار بتائی گئی تھی۔
مواصلاتی نظام پر پابندی کے ساتھ ہی اہلیان وادی کو نہ صرف بیرون ریاست وملک اپنے احباب و اقارب کے ساتھ رابطہ منقطع ہوا بلکہ وادی کے اندر بھی اپنے اقارب و دوستوں کے ساتھ تعلقات منقطع ہوگئے یہاں تک کہ ایمرجنسی سروسرز جیسے اسپتالوں، فائر اینڈ ایمرجنسی سروسز، پولس وغیرہ کے ساتھ بھی رابطے کا کوئی ذریعہ نہیں رہا جس کے نتیجے میں لوگوں کو طرح طرح کے مسائل و مشکلات سے دوچار ہونا پڑا۔ مواصلاتی نظام پر عائد پابندی، جس کو وادی میں اب تک کی بدترین مواصلاتی پابندی تصور کیا جاتا ہے، نے سری نگر میں رہائش پذیر لوگوں کا جینا دو بھر کردیا، دور افتادہ علاقوں کے لوگوں کے مشکلات اس سے کئی گنا زیادہ تھیں۔
کمیونیکیشن معطل ہونے سے یہاں لوگوں کوملک کی مختلف ریاستوں میں زیر تعلیم بچوں، تجارت یا کوئی دوسری نوکری کرنے والوں کے ساتھ رابطہ منقطع ہونے سے سخت ترین پریشانیاں جھیلنی پڑیں، وادی کے اندر رہنے والے لوگ بھی پریشان اور باہر قیام پذیر لوگوں کا حال زیاد ہی خراب ہوا۔ 5 اگست کو دفعہ 370 کی منسوخی سے قبل اور بعد بھی سفر محمود پر روانہ ہوئے حاجی صاحبان اور ان کے اعزہ و اقارب کی پریشانیاں قلمبند کرنا بھی محال ہے۔
لوگ منجملہ بالخصوص طلبا اور بے روزگار ہوئے نوجوان ذہنی بیماریوں کے شکار ہوگئے اور یہاں جو ذہنی بیماریوں کا گراف پہلے ہی کافی بلند تھا، آسمان کو چھونے لگا۔ غلام محمد وانی نامی ایک شہری جس کا بیٹا بیرون ریاست زیر تعلیم ہے، نے یو این آئی اردو کے ساتھ اپنی روداد بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایک ماہ کے بعد جب میں نے اپنے بیٹے کو ملنے گیا تو وہ زار وقطار رونے لگا اور میری آنکھیں بھی اشک بار ہوگئیں۔ انہوں نے کہا کہ 'جب یہاں پانچ اگست کو سب کچھ ٹھپ ہوگیا تو میں نے پندرہ دن گزر جانے کے بعد اپنے بیٹے کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن تمام کوششیں نامراد ثابت ہوئیں پھر قریب ایک ماہ کے بعد میں اس کو ملنے کے لئے گیا تو مجھے دیکھ کر وہ زار وقطار رونے لگا اور پھر کہا کہ ہم آپ کے متعلق از حد فکر مند تھے'۔
اگر کوئی شخص اچانک بیمار ہوجائے تو کسی طرح اس کو اسپتال تو منتقل کیا جاتا ہے لیکن گھر سے نکلتے ہی مریض وتیمارداروں کے ساتھ رابطہ منقطع ہوجاتا ہے اور پھر جب تک نہ اسپتال سے کوئی تیماردار گھر آئے یا گھر سے کوئی اسپتال چلا جائے تب تک بیمار کے حال کے متعلق کچھ معلوم نہیں ہوتا ہے۔ مواصلاتی نظام پر عائد پابندی سے یہ بھی معلوم ہونا مشکل ہوجاتا ہے کہ بیمار کو کس اسپتال میں داخل کیا گیا۔
شبیر احمد نامی ایک شہری نے اپنی اہلیہ کی اچانک طبیعت بگڑ جانے کی روداد بیان کرتے ہوئے کہا کہ 'میری اہلیہ شام دیر گئے اچانک بیمار ہوگئی تو کسی طرح گاڑی کا بندوبست کرنے کے بعد ہم نے اس کو اسپتال منتقل کیا لیکن گھر والوں کے ساتھ رابطہ نہیں رہا جس کے باعث ہمارے گھر والوں کو رات بھر وادی کے چار بڑے اسپتالوں کی خاک چھاننی پڑی کیونکہ انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ ہم کس اسپتال میں ہیں'۔بعض لوگوں کو دو دو دنوں کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مریض کس اسپتال میں زیرعلاج ہیں اور ان کی حالت کیسی ہے۔
اگر کہیں کسی کی موت واقع ہو جاتی تھی تو دوردراز علاقوں کے رشتہ داروں کو فون کرکے مطلع کیا جاتا تھا لیکن اب ایسی صورتحال میں انہیں مطلع کرنے کے لئے ایک قاصد کو بھیجنا پڑتا ہے تو کبھی کھبار ایسا بھی ہوتا ہے کہ میت کو دفن کرنے کے بعد قریبی رشتہ دار آتے ہیں۔ وسطی ضلع بڈگام کے ایک دورافتادہ گاؤں کے محمد امین نامی ایک شہری نے کہا کہ ان کے ایک ماموں کی موت واقع ہوئی لیکن وہ ان کے دفن ہونے کے ایک دن بعد وہاں پہنچے۔
سری نگر کے مضافات میں حال ہی میں دو دکانیں خاکستر ہوئیں تو فائر سروس کو بلانے کے لئے ایک آدمی کو موٹر سائیکل پر بھیج دیا گیا اور پھر جب تک وہ لوگ مشینری سمیت جائے واردات پر پہنچے تو آگ نے اپنا کام کیا تھا اور دکانیں مکمل خاکستر ہو چکی تھیں۔ دوردراز علاقوں میں آ گ لگنے کی وجہ سے فلک بوس عمارتیں زمین بوس ہوگئیں کیونکہ متعلقہ محکمہ کے ساتھ وقت پر رابطہ نہیں ہوسکا۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ اگر فون چل رہے ہوتے تو فائر سروس والے وقت پر پہنچتے تو دکانوں کو اس قدر ہوئے نقصان سے بچایا جا سکتا تھا۔
وادی میں مواصلاتی پابندی سے صحافیوں کو بھی بدترین مشکلات سے دوچار ہونا پڑا، ایک تو ان کے ذرائع مفقود ہوگئے اور دوسرا اپنی رپورٹ فائل کرنے کے لئے انہیں اپنے دفتر پیدل آنا پڑ رہا ہے اور اپنی رپورٹوں کو میل کرنے کے لئے سری نگر میں قائم میڈیا سینٹر کا روزانہ بنیادوں پر چکر کاٹنا پڑ رہا ہے اوروہاں ناکافی انتظامات کے باعث مزید مشکلات سے دوچار ہونا پڑرہا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ مواصلاتی پابندی سے یہاں زمانہ قدیم کی کئی یادیں تازہ ہوئیں اور اب رشتہ داروں یا دوستوں کو کوئی پیغام بھیجنے کے لئے باقاعدہ پرانے زمانے کی طرح آدمی بھیجنا پڑتا ہے اور جو کام پانچ منٹ میں ہوتا تھا اب اسی کام کو انجام دینے کے لئے ایک دن لگ جاتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ انتطامیہ نے زائد از دو ماہ کے بعد پیر کے روز وادی میں پوسٹ پیڈ موبائل سروس بحال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم انٹرنیٹ پر عائد پابندی کب ہٹائی جائے گی یہ آنے والا وقت ہتائے گا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 12 Oct 2019, 9:00 PM