وادی کشمیر میں بند اور ہڑتال کا 51واں دن، معمولات زندگی بدستور معطل
وادی میں موبائل فون و انٹرنیٹ خدمات پر جاری پابندی سے پیشہ ور افراد کا کام اور طلباء کی پڑھائی متاثر ہے۔ طلباء اور روزگار کی تلاش میں برسر جدوجہد نوجوان آن لائن فارم جمع نہیں کرپا رہے ہیں۔
سری نگر: وادی کشمیر میں دفعہ 370 کی منسوخی اور ریاست کی دو حصوں میں تقسیم کے خلاف منگل کے روز مسلسل 51 ویں دن بھی ہڑتال رہی۔ گرمائی دارالحکومت سری نگر اور دیگر 9 اضلاع کے قصبہ جات و تحصیل ہیڈکوارٹروں میں دکانیں و تجارتی مراکز بند ہیں جبکہ سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کی آمدورفت معطل ہے۔ تاہم جہاں ہڑتال کے دوران سڑکوں پر چلنے والی نجی گاڑیوں کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے، وہیں اب کچھ سڑکوں بالخصوص بارہمولہ جموں ہائی وے پر چھوٹی مسافر گاڑیاں بھی چلتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔
گزشتہ زائد از ڈیڑھ ماہ سے پبلک ٹرانسپورٹ لگاتار بند رہنے سے اس سے جڑے افراد کو بے تحاشا مالی نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ وادی میں پانچ اگست جس دن مرکزی حکومت نے جموں وکشمیر کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 370 منسوخ کی اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا، سے سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ مسلسل معطل ہے۔ وادی کی سڑکوں پر چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ گاڑیوں کی تعداد پچاس ہزار بتائی جارہی ہے جن کی نقل وحرکت پانچ اگست سے معطل ہے۔
وادی میں اگرچہ دکانیں و تجارتی مراکز دن کے وقت مکمل طور پر بند رہتے ہیں تاہم کچھ بازاروں میں صبح کے وقت رونق دیکھی جارہی ہے۔ گرمائی دارالحکومت سری نگر کے کچھ حصوں میں اب نماز فجر کی ادائیگی کے بعد دکانیں کھل جاتی ہیں اور لوگ بھی ان دکانوں کا رخ کرکے خریداری کرتے ہیں تاہم نو بجتے ہی دکانیں فوراً بند ہوجاتی ہیں اور بازاروں میں ایک بار پھر اگلی فجر تک ہوکا عالم چھا جاتا ہے۔ اسی طرح سری نگر میں قائم سبزی منڈیوں میں فجر ہوتے ہی لوگوں کی اس قدر بھیڑ لگ جاتی ہے کہ صرف ایک یا دو گھنٹے کے اندر ہی ساری سبزی بک جاتی ہے۔
وادی میں موبائل فون و انٹرنیٹ خدمات پر جاری پابندی منگل کو 51 ویں دن میں داخل ہوگئی۔ مواصلاتی خدمات پر پابندی کی وجہ سے اہلیان کشمیر کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ پیشہ ور افراد کا کام اور طلباء کی پڑھائی بری طرح سے متاثر ہے۔ طلباء اور روزگار کی تلاش میں برسر جدوجہد نوجوان آن لائن فارم جمع نہیں کرپا رہے ہیں۔
وادی بھر میں تعلیمی ادارے گزشتہ زائد از ڈیڑھ ماہ سے بند پڑے ہیں۔ انتظامیہ کی جانب سے جو تعلیمی ادارے کھولے گئے ہیں ان میں طلباء کی حاضری صفر کے برابر ہے۔ اگرچہ سرکاری دفاتر کھلے ہیں تاہم ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان میں ملازمین کی حاضری بہت کم دیکھی جارہی ہے۔ لوگ بھی دفاتر کا رخ نہیں کرپاتے ہیں۔
انتظامیہ نے بی جے پی کو چھوڑ کر تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کو نظر بند رکھا ہے۔ نیشنل کانفرنس صدر و رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ پر پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق کیا گیا ہے۔ انہیں اپنے ہی گھر میں بند رکھا گیا ہے۔ علیحدگی پسند لیڈران بھی خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں۔ وادی میں جاری موجودہ ہڑتال کی کال کسی جماعت نے نہیں دی ہے۔
انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ وادی کی صورتحال تیزی کے ساتھ بہتری کی جانب گامزن ہے تاہم اس کے برعکس اسٹیٹ روڑ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی بسیں بھی سڑکوں سے غائب ہیں۔ ان میں سے کچھ درجن بسوں کو سول سکریٹریٹ ملازمین اور سری نگر کے دو تین اسپتالوں کے عملے کو لانے اور لے جانے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ ایس آر ٹی سی کی کوئی بھی گاڑی عام شہریوں کے لئے دستیاب نہیں ہے جس کی وجہ سے انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 24 Sep 2019, 5:10 PM