امتحان تو کاشی اس بار بھی لے رہی ہے! مودی کے بیان نے گرمیایا بنارس کا مزاج

بی جے پی اپنے قلعہ کو بچائے رکھنے کی پرزور کوشش میں ہے اور اس کے لئے خود وزیر اعظم مودی نے محاذ سنبھال رکھا ہے، وہ اس دوران بنارس میں قیام کریں گے، یعنی آخری مرحلہ کی جنگ ’گرینڈفینالے‘ ثابت ہوگی

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

بنارس سے ارون مشرا کی رپورٹ...

کاشی کا مشہور و معروف اسی گھاٹ، اسی گھاٹ پر وزیر اعظم نریندر مودی نے پھاوڑا چلا کر، جھاڑو لگاکر قومی صفائی مہم شروع کی تھی۔ تب سے لے کر اب تک گنگا کی لہروں کے ساتھ سیاست کی لہریں بھی خوب ہلچل مچا رہی ہیں۔ گھاٹ کے راستہ پر چائے کی چسکیاں لے رہے بی ایچ یو کے طلبا کے درمیان موجودہ سیاست پر چل رہی بحث میں ساتھی کی دلیل پر طالب علم شیوم سریواستو بھڑک اٹھے اور ایک ساتھ ’بدلتے بنارس‘ کو انگلیوں پر اتار دیا۔ بولے- ’’سات سال میں بنارس نہیں بدلا، بنارسیوں نے خود کو ہی بدل ڈالا!‘‘

سڑک کنارے دکاندار امت اور بچہ یادو بھی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے بولے، بھیا تب کے بنارس اور اب کے بنارس میں بہت فرق آ گئیل ہو، وشوناتھ مندر بن نے کے بعد بھیڑ بڑھ گئیل با۔ چار سال پہلے اسی جگہ دکان لگاوت رہلی تب سو دو سو رپیہ مشکل سے ہاتھ میں بچت رہل، آج ایتنا کما لیت ہئی کہ پریوار اچھے سے چل جات ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ پاس کھڑے راکیش پانڈے بنارس کی گلیوں کی اپنی شناخت کھونے سے خوش نہیں ہیں۔ ان کا اشارہ کاشی وشوناتھ کوریڈور کی جانب ہے وہ اس بات سے بھی ناخوش ہیں کہ اسی نالے کا کوئی مستقل حل نہیں نکالا جا سکا۔


ان دنوں بنارس کی فضا میں غضب کا جوش نظر آتا ہے۔ ہر ہر مہادیو کے ساتھ ہر ہر مودی کی گونج صبح سے شام تک بازاروں، چٹی چوراہوں پر سنائی دے رہی ہے۔ کہتے ہیں کہ مہابھارت کی آخری لڑائی کروکشیتر میں لڑی گئی تھی۔ ایسے میں یوپی اسمبلی کے آخری مرحلہ میں ہونے والی چناوی مہابھارت کی اصل جنگ چھٹویں اور ساتویں مرحلہ میں آنے والی بنارس سمیت 10 اضلاع کی 61 سیٹوں کو مانا جا رہا ہے۔ بی جے پی کی گھیرابندی کو توڑنے کے لئے حزب اختلاف بھی خاصی تیاری میں ہے۔ وہ اس علاقہ کی بیشتر سیٹوں پر لڑائی کو سیدھا اور بی جے پی کے لئے مشکل کر دینا چاہتی ہے، کیونکہ اس مرحلہ کے نتائج کا پیغام بھی الگ ہوگا اور اشارہ بھی۔ یہی وجہ ہے کہ اکھلیش یادو، ممتا بنرجی، راہل گاندھی، پرینکا گاندھی سمیت تمام حزب اختلاف کے قدآور لیڈران کا یہاں 3 سے 5 مارچ کے درمیان مجمع لگ رہا ہے۔ بی جے پی اپنے قلعہ کو بچائے رکھنے کی پرزور کوشش میں ہے اور اس کے لئے خود وزیر اعظم مودی نے محاذ سنبھال رکھا ہے۔ وہ بھی اس دوران بنارس میں ہی رہنے والے ہیں۔ یعنی آخری مرحلہ کی جنگ گرینڈ فینالے کی طرز پر ہونے جا رہی ہے۔

بنارس میں اس مرتبہ جنوبی شہر اسمبلی سیٹ سب سے زیادہ زیر بحث ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وزیر اعظم مودی کے ڈریم پروجیکٹ کاشی وشو ناتھ دھام کوریڈور کے وجود میں آنے کے بعد یہ پہلا چناؤ ہے اور یہ کوریڈور اسی سیٹ میں شامل ہے۔ پورے چناؤ کے دوران بی جے پی کی ریلیوں میں اس پروجیکٹ کی گونج سنائی دیتی رہی۔ دس دن پہلے تک بنارس میں حزب اختلاف چار اسمبلی سیٹوں پر شہر جنوبی، کینٹ، پنڈرا اور سیواپوری میں سخت چیلنج دیتا ہوا نظر آ رہا ہے لیکن وزیر اعظم مودی نے بوتھ کارکنان کے ساتھ مکالمہ کے دوران کاشی میں ان کی ’موت کی خواہش‘ کو لے کر جو بیان دیا، وہ ماحول کو تبدیل کرنے کی کوشش کے طور پر سامنے آیا۔ 2017 کی کارکردگی کو دہرانے کے لئے بی جے پی نے اپنے تمام سیاسی پتے کھول دئے ہیں۔ امت شاہ سے لے کر تمام قدآور لیڈران یہیں خیمہ زن ہیں۔


ریٹائرڈ ٹیچر سنیل مشرا کا کہنا ہے کہ جس نے کاشی کا دل جیت لیا، کاشی اسی کی ہو گئی۔ بابا وشوناتھ کا شہر ایسا ہی منفرد ہے۔ انہوں نے کہا- پہلے نریندر مودی کے 'مجھے تو ماں گنگا نے بلایا ہے' والے بیان پر کاشی فدا ہو گئی تھی۔ ان کا ماننا ہے کہ کاشی کو کیوٹو بنانے کا دعویٰ بھلے ہی پورا نہ ہوا ہو لیکن یہاں پر معمولات زندگی میں ضرور بڑی تبدیلی آئی ہے۔

ہوٹل چلانے والے پرتیمیش شرما کہتے ہیں کہ کسی شہر کے طرز زندگی، فطرت اور طرز عمل کو بدلنے میں کئی نسلیں لگ جاتی ہیں اور اس میں تبدیلی نظر آتی ہے۔ وہ دلیل دیتے ہے کہ پہلے لوگ ہر جگہ پان کی پیک تھوک دیا کرتے تھے۔ کچرا پھینکتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ لوگ باشعور ہو چکے ہیں۔ ہاں، یہ سچ ہے کہ بہت کچھ بدلنا باقی ہے۔ گھریلو خاتون کمود سنگھ کا یہ بیان کہ- ’’یہاں لوگ امیدوار کو نہیں، بلکہ مودی کے نام پر ووٹ دیں گے' کو بھی حزب اختلاف کے لیے سخت چیلنج کی بنیاد کہا جا سکتا ہے۔


مسلم اکثریتی ریوڑی تالاب کے محمد جاوید کا بھی ماننا ہے کہ کاشی وشوناتھ دھام کی تعمیر سے ہر طبقے کو فائدہ ہوا ہے۔ کاروبار میں اضافہ ہوا، تاہم بنکروں کے لیے سنگل ونڈو سسٹم کی شروعات پھر بھی نہیں ہوئی۔ ہاں سیاح ضرور بڑھے ہیں اور اس سے بنارسی ساڑیوں کی طلب میں اضافہ ہوا ہے۔ دال منڈی کے محمد اسلم صاف گوئی سے کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو وشوناتھ دھام کی تعمیر پر کبھی کوئی اعتراض نہیں ہوا، کیونکہ گیانواپی مسجد جوں کی توں ہے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ بنیادی سہولیات پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

تاہم، ان تمام چیزوں کے ساتھ، اگر ہم انتخابی ماحول کی زمین پر نظر ڈالیں، تو کاشی جتنی سیدھی سادی ہے اتنا ہی سب کا امتحان لے رہی ہے۔ اس بار یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پورا بنارس پی ایم مودی کے لئے وقف ہے۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے نتائج بتاتے ہیں کہ 3.5 لاکھ لوگوں نے مودی کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ یہاں اپنا دل (انوپریہ پٹیل) اور سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی کی بھی دیہی علاقے کے اسمبلی حلقے میں مضبوط گرفت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شیو پور اسمبلی سیٹ پر کابینہ وزیر انل راجبھر کو ایس بی ایس پی کے صدر اوم پرکاش راجبھر کے بیٹے اروند راجبھر سے سخت چیلنج کا سامنا ہے۔ دوسری طرف وزیر نیل کنٹھ تیواری کو شہر جنوبی سیٹ پر ایس پی کے نوجوان لیڈر کشن دیکشت سے سخت چیلنج کا سامنا ہے۔


مودی کا ان کے قلعہ میں محاصرہ کریں گے اکھلیش-ممتا، راہل-پرینکا

شہری علاقے کی تینوں سیٹوں پر اقلیتوں کے علاوہ بنگالی ووٹرز کا غلبہ ہے۔ ممتا بنرجی اکھلیش یادو کے ساتھ اس علاقے میں انتخابی مہم چلانے جا رہی ہیں۔ دونوں رہنما 4 مارچ کو یہاں روڈ شو کریں گے۔ کانگریس کی ریاستی انچارج پرینکا گاندھی بھی وارانسی کی دو سیٹوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے انتخابی مہم چلائیں گی۔ ان کی نظر میں پہلی سیٹ پنڈرا پر ہے، جہاں سے پانچ بار کے ایم ایل اے، مضبوط لیڈر اجے رائے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اجے رائے کی یہ سیٹ کانگریس کے لیے مضبوط دعویداری والی مانی جا سکتی ہے۔ کینٹ سیٹ پر سابق ایم پی راجیش مشرا کانگریس کے ٹکٹ سے امیدوار ہیں۔ یہ نشست بھی ان دنوں زیر بحث ہے۔ یہ پوروانچل کا دوسرا علاقہ ہے جہاں کانگریس کو اپنے لئے امکانات روشن نظر آ رہے ہیں۔

سیاسی تجزیہ کار وجے نارائن کا کہنا ہے کہ اس بار پوروانچل میں 2017 جیسی سیاسی صورتحال نہیں ہے۔ پانچ سالوں میں عوام میں بی جے پی کی کیا شبیہ رہی، الیکشن اسی بنیاد پر لڑا جائے ہے۔ تاہم کاشی میں تین دن کے قیام کے دوران پی ایم مودی وارانسی کی تمام آٹھ اسمبلی سیٹوں کو بی جے پی کے حق میں کرنے کی کوشش کریں گے۔ اب سب کی نظریں اس ریاضی پر مرکوز ہیں کہ انتخابی پیمانے پر وزیر اعظم کی یہ کوشش کیا کرشمہ دکھاتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔